صاف و شفاف انتخابات سے متعلق ماسٹر پلان کھل کر سامنے آتا جا رہا ہے۔
پچھلے ایک سال کے اندر سپریم کورٹ کا کردار اور ایجنڈا بھی واضع ہو چکا: نواز شریف کو پانامہ کا کیس چلا کراقامہ پر نااہل کیا۔ پارٹی کی صدارت سے فارغ کیا اور اب سزا کو تاحیات قرار دے دیا۔ یہ حسن اتفاق نہیں نیب کی توپوں کا رخ سندھ سے گھما کر پنجاب کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ ہر وہ سیاسی کھلاڑی جو اپنی بقا چاہتا ہے اس پر لازم ہوگیا ہے کہ وہ صبح شام ملک کے ہر مسئلے کا ذمہ دار شریف برادران کو ٹھہرائے۔
مسلم لیگ (ن) کو تتر بتر کرنے کے لئے وفاداریاں تبدیل کرانے کا سلسلہ بلوچستان سے شروع کیا گیا، پھر سرائیکی صوبے والے جاگے۔ الیکشن کے آتے آتے اس رجحان میں مزید تیزی آئے گی۔ کہیں خادم رضوی جیسے کردار اپنا کام دکھائیں گے تو کہیں ایسے منحرفین جن کا اب ضمیر جاگ جائے گا۔
مقصد ہے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ نواز کو سیاسی طور پر لہو لہان کرنا ہے تا کہ ایک منقسم پارلیمان اور عمران خان کے لئے راہ ہموار کی جائے۔
کراچی میں یہ عمل دو سال پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو تہس نہس کرنے کےساتھ مصطفیٰ کمال کو محب وطن پاکستانی کے طور پر لانچ کیا گیا۔ فاروق ستار نے سو فیصد ڈکٹیشن لینے میں سستی دکھائی تو انہیں اپنی ہی ٹیم سے گندہ کرا دیا۔ آئے دن کی نام نہاد شمولیتوں سے واضح ہوتا جا رہا ہےکہ اسٹیبلیشمنٹ چاہتی ہے کہ پی ایس پی کو ایم کیو ایم کے نعم البدل کے طور پر ابھارا جائے۔
پہلے ایم کیو ایم عتاب میں آئی۔ اب مسلم لیگ (ن) بھگت رہی ہے۔ کیا مائینس ون کا اگلا ہدف پیپلز پارٹی ہوگی؟
ایسی نوبت نہ ہی آئے اس لئے زرداری صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے گھٹنے مضبوطی سے پکڑ لئے ہیں۔ وہ اپنے حالیہ قول و فعل سے مسلسل اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ جو خدمت آپ کی عمران خان کرسکتے ہیں وہ ہم زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اگر نواز شریف کی مسلم لیگ کو ٹھکانے لگنے کا تہیہ کر چکی ہے تو جب تک یہ پراجیکٹ پورا نہیں ہوتا پیپلز پارٹی کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی افادیت اور وفاداری ثابت کرکے خود کو کسی متوقع نقصان سے بچا لے۔
سوال یہ ہے کہ اس پورے کھیل کے آخر میں حاصل کیا ہوگا؟ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر اقتدار میں آ بھی جاتے ہیں، تو کیا انہیں چلنے دیا جائے گا؟ وہ جس قسم کے اکھڑ مزاج سیاسی رہنما ہیں، اور جس طرح بلا سوچے سمجھے بار بار اپنا موقف بدلنے کے لئے جانے جاتے ہیں، ان سے حکومت چل پائے گی؟ جب وہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے روایتی اور مالدار اراکین کے زور پر الیکشن جیت کر آئیں گے تو کرپشن کے خلاف جہاد کیسے کریں گے؟ کیا انہیں خاجہ پالیسی پر اختیار مل جائے گا؟
ہماری تاریخ اور تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ جن ہاتھوں میں وہ کھیل رہے ہیں، کبھی میاں صاحب بھی انہیں ہاتھوں میں کھیل چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنا سبق تب سیکھا جب کافی دیر ہوچکی تھی۔ عمران خان اور زرداری صاحب اپنے مفادات کو بہتر سمجھتے ہوں گے۔ لیکن اقتدار کی رسہ کشی میں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ جو آج نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے کل یہی صادق و امین والے فارمولے ان پر بھی لاگو ہو سکتے ہیں۔