قارئین! کالے دھن اور سفید خون کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے… ان دونوں میں بہترین ”ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ پائی جاتی ہے اور اسی ریلیشن شپ کے نتیجے میں یہ جنس جا بجا اور بے تحاشا فروغ پا رہی ہے۔ اکثر کیسز میں پہلے خون سفید ہوتا ہے … پھر کالے دھن کی ”دُھن‘‘ سوار ہوتی ہے جبکہ بعض کیسز میں کالے دھن کا ”گُھن‘‘ لگنے کے بعد بتدریج خون سفید ہونا شروع ہوتا ہے اور بالآخر پھر وہ دن بھی آجاتا ہے کہ لوگ کہنا شروع کر دیتے ہیں‘ جب سے اس کے پاس ”لمبا مال ‘‘ یعنی کالا دھن آیا ہے اس کا تو خون ہی سفید ہو گیا ہے یعنی جہاں خون سفید ہو اور کالا دَھن نہ ہو … کالا دَھن ہو اور خون سفید نہ ہو ممکن ہی نہیں۔ حرام مال کسی بھی طریقے سے کمایا گیا ہو کہلاتا ”کالا دھن‘‘ ہی ہے‘ چاہے منہ کالا کرکے کمایا گیا ہو یا ہاتھ رنگ کر‘ بنامِ دین کمایا گیا ہو یا بنامِ وطن۔ کسی کو اُجاڑ کر اپنی دنیا سنواری گئی ہو یا کسی کے حق پر ڈاکہ ڈال کر۔ اخلاقی اور معاشرتی قدروں کو پامال کرکے اکٹھا کیا گیا ہو یا گراوٹ اور پستی کی حدوں کو پار کرکے کمایا گیا ہو۔ سہولت کاری کر کے مال بنایا گیا ہو یا ضمیر کو سُلا کر۔ کوئی بھتہ اور کمیشن کو محنت کی کمائی سمجھتا ہو یا فنکاری… یہ سبھی کالے دھن کے روپ بہروپ ہیں۔ قارئین‘ تمہید اور استعارے کچھ زیادہ ہی طویل ہوتے چلے جا رہے ہیں؛ تاہم چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف، نیا پاکستان بتدریج اپنے اَصل اور پرانے پاکستان کی طرف لوٹنا شروع ہو چکا ہے۔ کالے دَھن کو سفید کرنے کی حکومتی پیشکش نے واپس لوٹنے کی رفتار کو ضربیں لگا دی ہیں۔
کابینہ سے لے کر غیر منتخب پالیسی سازوں‘ معاونین اور مشیروں پر ایک نظر ڈالیں تو لگتا ہی نہیں کہ پاکستان کبھی نیا بھی ہوا تھا۔ پی ٹی آئی کا موجود فیس اور بھیس‘ دونوں آج بھی وزیر اعظم کی ماضی کی شعلہ بیانیوں، اصولی مؤقف، اٹل فیصلوں اور بلند بانگ دعووں کی چغلی کھاتے دِکھائی دیتے ہیں۔ ایمنسٹی سکیم کی منظوری کی خبر سامنے آنے کے بعد مسلسل رنگ برنگی اور بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ ایک دل جَلے دوست میاں اکرم کا دلچسپ اور حسبِ حال تبصرہ شیئر کرتا چلوں۔ موصوف کہتے ہیں ”کسی کے کہنے پر گھوڑے پر نہیں بیٹھے اور اپنی مرضی سے اَب کھوتے پر بیٹھنے کو تیار ہو گئے ہیں‘‘۔ مزید کہتے ہیں ”ارے بھئی! اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو نو ماہ سے ملک بھر میں ”نوٹنکی‘‘ لگانے کا کیا مقصد تھا؟ پرانے پاکستان کی طرف لوٹنے کا سفر ”یو ٹرن‘‘ سے شروع ہو کر آئی ایم ایف کے چوراہے سے ہوتا ہوا اَب ایمنسٹی سکیم کے مین بلیوارڈ تک آن پہنچا ہے۔ روڈ سگنل فری ہو اور سفر واپسی کا ہو تو… کب کٹا کیسے کٹا…؟ پتہ ہی نہیں چلتا۔ خیر بات ہو رہی تھی کالے دھن کو سفید کرنے کی۔ کسی زمانے میں ایک بیوٹی کریم کا اشتہار ٹی وی پر کچھ اس طرح چلا کرتا تھا ”کالے رنگ نوں گورا کرے تے گورے نوں چن ورگا‘‘ کالے دھن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایک مرتبہ کالا دھن تو پھر ”کالے دَھن کی دُھن‘‘… اور پھر دُھن میں دُھن بس کالے دَھن کی ”دُھن‘‘ یعنی صبح، دوپہر، شام بس ایک ہی کام… مال مال اور بس مال۔
در حقیقت ہمارے حکمرانوں پر یہ حقیقت تقریباً پون سال بعد آشکار ہوئی ہے کہ چندہ اکٹھا کرنا اور ٹیکس وصول کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کینسر ہسپتال کے لیے دِل کھول کر بے تحاشا چندہ دینے والوں کے جذبات ٹیکس دیتے وقت ٹھنڈے کیوں پڑ جاتے ہیں؟ وہ ٹیکس دینے میں اُسی فراخ دِلی اور سخاوت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے راہِ فرار کیوں اختیارکرتے ہیں؟ یہ کوئی راکٹ سائنس یا معمہ ہرگز نہیں‘ بڑی سیدھی اور سادہ سی بات ہے… چندہ تو راہِ اﷲ میں دیا جاتا ہے اور دینے والے کی نیت کسی بھی کارِ خیر کو بڑھاوا دینا اور خلقِ خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہی ہوتی ہے اور دینے والے کو یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ میری یہ نیکی اﷲ کے ہاں ضرور مقبول ہو گی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وثوق سے کہا ہی نہیں جا سکتا کہ عوام سے حاصل کیا جانے والا ٹیکس کہاں اور کس مد میں خرچ کیا جائے گا۔ ٹیکس سے حاصل ہونے والا پیسہ مفادِ عامہ کے منصوبوں پر خرچ ہوگا یا ”اَللّوں تَللّوں‘‘ میں ہی اُڑا دیا جائے گا… جیسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ اگر عوام کو یہ یقین ہو جائے کہ اِن کے ٹیکسوں کا پیسہ اِنہی کی فلاح و بہبود اور ملک و قوم کی ترقی پر خرچ ہو گا تو یہی چندہ دینے والے ٹیکس بھی بڑھ چڑھ کر دیتے نظر آئیں گے۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چارٹرڈ طیاروں پر غول در غول‘ سوٹڈ بوٹڈ‘ ہاتھوں میں کشکول لیے بیرونِ ملک جانے والوں نے عوام کو یہی سبق دیا ہے کہ اِن کی خون پسینے کی کمائی کے ساتھ ہمیشہ ”مالِ مفت دِل بے رحم‘‘ والا معاملہ ہی ہوا ہے۔بظاہر تو یہ ایمنسٹی سکیم ہے… کالے دَھن کو سفید کرنے کا ایک فارمولا‘ جس کے تحت پاکستان میں رہنے والے 4 فیصد جبکہ بیرون ممالک رہنے والے پاکستانی 6 فیصد ٹیکس ادا کر کے ملکی اور غیر ملکی اثاثہ جات کو منظرِ عام پر لا کر اپنے کالے دَھن کو سفید کرکے قانونی تحفظ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ حکومتی پیشکش 30 جون تک ہے۔ اس دوران بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کو باآسانی قانونی تحفظ دلوایا جا سکتا ہے‘ لیکن بعد از مہلت جرمانے اور قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔ اس سکیم کے نتیجے میں ٹیکس نیٹ میں اضافے کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام اس سکیم سے فائدہ اُٹھا کر ٹیکس نیٹ کا مستقل حصہ بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ایمنسٹی سکیم ایک جھانسہ ہے‘ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے جبکہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ اس سکیم کا مقصد خوف و ہراس اور بے چینی پیدا کرنا نہیں بلکہ معیشت کو دستاویزی بنانا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی ایسی سکیمیں آتی رہی ہیں لیکن معیشت دستاویزی ہوئی اور نہ ہی مستحکم… رہی بات ٹیکس نیٹ کی تو وہ اس وقت تک وسیع نہیں ہو سکتا جب تک عوام کو یہ یقین نہ ہو کہ اُن کا پیسہ ”اَللّوں تَللّوں‘‘ اور آنیوں جانیوں پر خرچ نہیں ہوگا۔ معیشت کو دستاویزی بنانے کے خواہشمند جانے مانے اور ”آزمودہ‘‘ اقتصادی مشیر نے اس سکیم کو ”آدھا تیتر…آدھا بٹیر‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس سکیم سے تمام پاکستانی یکساں طور پر استفادہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔
تمام اہم سیاسی شخصیات جن میں موجودہ اور سابقہ وزرائے اعظم، وفاقی وزرا، مشیر، معاونینِ خصوصی، سابق وزرائے اعلیٰ، صوبائی کابینہ اَرکان قومی و صوبائی اسمبلی، اراکینِ سینیٹ، تمام سیاسی جماعتوں کی قومی و صوبائی قیادت، بیوروکریسی، خود مختار و نیم خود مختار اداروں کے سربراہان اس سکیم سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے جبکہ ریئل اسٹیٹ والوں کے لیے بھی یہ سکیم شجر ممنوعہ قرار دے دی گئی ہے۔اصل رسپانس اور وصولیاں تو انہیں سیکٹرز سے مِل سکتی تھیں۔ ان کے مقابلے میں باقی رہ جانے والے سیکٹرز تو ”چھان بورا‘‘ ہی نظر آتے ہیں۔ ریئل سٹیٹ کو اس سکیم کے ثمرات سے محروم کرکے حکومت بے تحاشا اور خطیر آمدنی سے خود کو محروم کر رہی ہے۔ اسی طرح مذکورہ سیاسی اور انتظامی اشرافیہ نے بھی بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کے کئی ریکارڈ توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کیے ہوئے ہیں۔ اِن کو صرف ”ٹٹولا‘‘ ہی جائے تو حیران کن اور چشم کشا وصولیاں اور انکشافات ہو سکتے ہیں جبکہ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حال ہی میں ایک ”ٹائیکون‘‘ کو دیا جانے والا پیکج اور سہولت بھی تو ایمنسٹی کی ہی ایک صورت ہے۔ اس تناظر میں ریئل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگ اس سکیم کا حصہ بن کر ٹیکس نیٹ میں غیر معمولی توسیع کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ سکیم اگر تمام سیکٹرز کو یکساں مواقع فراہم کرے تو معیشت کی خشک اور بنجر زمین بھرپور سیراب ہو سکتی ہے۔ اس طرح اِن کا ”کالا دَھن‘‘ بھی سفید ہو جائے گا اور اَندر کا ”گِلٹ‘‘ بھی مزید گلنے سڑنے سے بچ جائے گا۔ ویسے بھی جس ملک میں ہمیشہ ہی ”دَھن راج‘‘ رہا ہو وہاں کالا تو کالا… نیلا، پیلا اور لال سبھی برابر ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ سب کو بلاامتیاز اور یکساں مواقع فراہم کرکے معیشت کی بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کرنے کا چانس ضرور لینا چاہیے۔