دھرنا کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے خادم حسین رضوی اور افضل قادری کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جسٹس شاہ ارجمند نے اسلام آباد دھرنا کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے گذشتہ سماعت پر پولیس کو چالان جمع کروانے کا حکم دیا تھا لیکن تاحال چالان جمع نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
گذ شتہ سماعت پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا تھا کہ مولانا خادم حسین رضوی سمیت چار ملزمان کے خلاف مقدمات درج ہیں لیکن عدالت کی جانب سے بار بار طلبی کے باوجود ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزمان کو مفرور قرار دیا جائے اور اس کے باوجود عدم حاضری کی صورت میں اشتہاری ٹھہرایا جائے۔ عدالت نے خادم حسین رضوی کا مفرور ملزم کا اسٹیٹس بھی برقرار رکھا۔
عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ 4اپریل تک ملزمان کے خلاف مقدمے کا حتمی چالان جمع کروایا جائے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں اسلام آباد کے فیض آباد پر تحریک لبیک کی جانب سے دھرنا دیا گیا جو تقریباً 22 روز بعد ختم ہوا جب کہ اس دوران توڑ پھوڑ اور پولیس اہلکاروں پر حملے کے مقدمات بھی درج کیے گئے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں بھی اسلام آباد دھرنا کیس سے متعلق سماعت ہوئی۔
سماعت میں عدالت نے آئی ایس آئی کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ گذشتہ سماعت پر پوچھا تھا کہ خادم رضوی کون ہے اور پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ خفیہ اداروں کو یہ تک نہیں پتہ کہ خادم حسین رضوی کو ذریعہ معاش کیا ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ آپ ڈپٹی اٹارنی جنرل ہیں، آپ کو تنخواہ ملتی ہے؟ اسی سے گزارا کرتے ہیں؟ آپ خفیہ ادارے کی اس رپورٹ سے کیسے مطمئن ہیں؟ یہ رپورٹ دیکھ کر تو مجھے خوف آنے لگا ہے۔
خادم رضوی بزنس مین ہے؟ خطیب ہے؟ کوئی دوسرا کام کرتا ہے؟ جسٹس قاضی نے سوال کیا کہ کیا خادم حسین رضوی کا کوئی بنک اکاؤنٹ ہے؟ اربوں کی جائیداد تباہ کر دی اور کسی کو معلوم نہیں کہ یہ شخص کرتا کیا ہے؟ پاکستان کو بنانا بہت مشکل ہے لیکن تباہ کرنا بہت آسان ہے۔ اگر کوئی ایسی بات ہے ، خفیہ معاملہ ہے تو بتائیں ان کیمرہ سُن لیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے دھرنا کیس میں خادم حسین رضوی اور افضل قادری کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا۔ اور ہدایت کی کہ کو بھی پیش کرنا ہے اٹارنی جنرل کے ذریعے پیش کریں۔ جس کے بعد کیس کی مزید سماعت کو دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔