ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے روحیں قبض کرنے والے فرشتے عزرائیل (علیہ السلام)سے دریافت کیا کہ اے عزرائیل، آج تک جن لوگوں کی روح تو نے قبض کی ان میں سے کسی پر تجھے کبھی رحم بھی آیا؟ عزرائیل نے عرض کیا کہ اے پروردگار، تو خوب جانتا ہے کہ روح قبض کرتے وقت ہمیشہ میرا دل دکھتا ہے، لیکن تیرے حکم سے سرتابی کی مجال کہاں۔ خدا نے پوچھا ’’یہ بتا کہ تجھے کس پر سب سے زیادہ ترس آیا اور کس کی موت پر تیرا قلب تڑپا؟عزرائیل نے عرض کیا ’’یا الٰہی، ایک موت ایسی ہے جو بھلائے نہیں بھولتی، اور وہ غم ایسا ہے جو تنہائی میں بھی میرے ساتھ رہتا ہے۔ ایک کشتی مرد و زن سے بھری ہوئی سمندر میں سفر کر رہی تھی۔ تو نے حکم دیا کہ اس کشتی کو فنا کر دے۔ میں نے کشتی کو پاش پاش کر دیا۔ پھر تو نے فرمایا کہ سب مرد و زن کی روحیں قبض کر، لیکن ایک عورت اور اس کے نوزائیدہ بچے کو چھوڑ دے۔ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی۔ سب کی جانیں قبض کر لیں۔ ایک بہتے ہوئے تختے پر ماں اور اس کابچہ رہ گئے۔ سمندر کی لہریں اس تختے کو اپنے ساتھ لئے آگے بڑھتی رہیں اور تیز ہوا نے اسے آناً فاناً سینکڑوں میل دور سمندر کے کنارے پر پہنچا دیا۔ میں اس ماں اور بچے کے بچ جانے سے بہت خوش ہوا لیکن اسی آن حکم صادر ہوا کہ اے عزرائیل، جلد ماں کی روح قبض کر اور بچے کو اکیلا چھوڑ دے۔ اے باری تعالیٰ تو خوب جانتا ہے کہ یہ حکم پا کر میرا بھی کلیجہ کانپ گیا تھا اور جب میں نے اس طفل شیرخوار کو اس کی ماں سے الگ کیا تو مجھے کس قدر تکلیف پہنچی تھی۔ اب اس واقعے پر ایک مدت بیت چکی، لیکن وہ بچہ برابر یاد آتا ہے۔حق جل شانہ نے عزرائیل کی عرض سن کر فرمایا، کیا تو جانتا ہے کہ وہ بچہ اب کہاں اور کس حال میں ہے؟تجھی کو علم ہے، اے میرے پروردگار‘‘۔ عزرائیل نے عرض کیا۔ارشاد ہوا ’’اے عزرائیل، سن جب تو نے ماں کی روح قبض کی اور بچے کو تنہا چھوڑ دیا تو ہم نے سمندر کی ایک موج کو حکم دیا کہ اس بچے کو احتیاط سے ایک ویران جزیرے میں ڈال دے۔ اس جزیرے میں ایک سرسبز او رگھنا جنگل تھا۔ یہاں صاف شفاف میٹھے پانی کے چشمے بہتے تھے اور بے شمار پھلدار درخت تھے۔ اس جزیرے پر ہم نے اپنے فضل و کرم سے محض اس بچے کی خاطر لاکھوں خوش نوا اور حسین پرندے بھیجے جو ہر وقت چہچہاتے اور نئے سے نیا راگ الاپتے تھے۔ ہم نے چنبیلی کے پھولوں اور پتوں کو حکم دیا کہ اس بچے کا بستر تیار کرو تاکہ وہ اس پر آرام کی نیند سوئے۔ ہم نے اسے ہر خوف اور ہر خطرے سے محفوظ کر دیا۔ آفتاب کو حکم دیا کہ اپنی تیز دھوپ اس پر نہ ڈال۔ ہوا کو فرمان دیا کہ اس پر آہستہ آہستہ چل۔بادلوں کو حکم دیا کہ اس پر مینہ نہ برسانا۔ بجلی کو ہدایت کی کہ خبردار! اسے اپنی تیزی دکھا کر مت ڈرا انہی دنوں جنگل میں بھیڑیے کی مادہ نے بچے دیئے تھے۔ہم نے اسے حکم دیا کہ اپنے بچوں کے ساتھ اس آدمی کے بچے کو بھی دودھ پلا، اس کی دیکھ بھال کر اور اسے کوئی گزند نہ پہنچنے دے۔ اے عزرائیل، اس نے بھی ہمارے حکم کی تعمیل کی، یہاں تک کہ وہ تنہا اور بظاہر بے یارو مددگار بچہ پرورش پا کر خوب صحتمند اور بہادر ہو گیا۔ ہم نے اس کے پاؤں میں کبھی کانٹا بھی نہ چبھنے دیا، دنیا جہان کی نعمتیں اسے عطا کیں اور وہ ان کا شکر بھی ادا کرتا تھا۔ اور اب اے ملک الموت، تو جانتا ہے وہ بچہ کہاں اور کیا کر رہا ہے؟‘‘’’تجھی کو علم ہے، اے میرے پروردگار‘‘ عزرائیل نے سجدہ کرتے ہوئے عرض کیا۔’وہ بچہ نمرود بن گیا، اور اسی نے میرے خلیل ابراہیم کو آگ کے الاؤ میں جھونکا ہے۔ اب وہ خدائی کا دعویٰ کر کے لوگوں کو میری راہ سے ہٹاتا ہے اور ان پر تشدد کرتا ہے‘