تحریر: حفیظ خٹک
82 سال کے بزرگ چوہدری نذیر احمد نے کہا کہ آپ جو ہر سال کے آغاز پر اک نئی ڈائری تخفے میں دیتے ہو اور اس بات پر اصرار کرتے ہو کہ میں اس میں کچھ لکھوں ، اپنی گذری زندگی کے قیمتی لمحات و واقعات کو اس ڈائری کے سپرد کروں۔ اپنے تجربات و احساسات کو خصوصا سابق صدر ایوب خان کے دور میں جب میری ذمہ داری اہمیت کی حامل تھی انہیں اور ان کے مہمانوں کو شکار کرانا اور اس شکاری معاملات میں ان مدد و رہنمائی کرنا میرا کام ہوا کرتا تھا، ان سب بھی ڈائری کی زینت بنائوں ، اب بھلا عمر کے اس حصے میں ، میں کیسے لکھوں ۔ یہ بات تو اچھی ہے کہ میری لکھی ہوئی چیزیں آپ کے اور دیگر سب پرھنے والوں کے کام آئیں گی۔ لیکن ڈائری میں لکھنے کا شوق اب نہیں رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں جب مصروفیت ذرا کم تھی وقت ہی وقت تھا کاموں کیلئے اپنے لئے اوروں کیلئے تب میں نے لکھی یہ ڈائری۔ اس ڈائری کا شوق اس وقت تھا ۔ شوق لکھنے کا تھا جس کو پورا کرنے کیلئے میں ڈائری کے صفحے بھر دیا کرتا تھا ۔ لیکن اب زمانہ کشھ عجب سا ہے ۔ اب تو وقت ہی نہیں کسی کے پاس بھی۔ وقت تو آپ کو اپنے لئے بھی دستیاب نہیں بھلا ایسی کیفیت میں ایسی صورتحال میں ڈائری کیوں کر اور کس لئے اور کس کے لئے لکھی جا سکے گی؟
ڈائری ، کیلئے اب وقت نہیں رہا ۔ ڈائری لکھنے کا معاملہ اب اب ایسا ہے کہ جیسے شاندار ماضی کے بعض اس شاندار ماضی کی ضد موجودہ دور میں گذر رہی ہو۔ اب تو ڈائری لکھنے کی عادت و صلاحیت کسی حد تک ناپید ہوچکی ہے ۔ چند لفظ اپنے لئے ، اپنوں کیلئے ، احساسات اپنے اوروں کیلئے ، خیالات ، افکار ، اغراض و مقاصد اپنے ، دیگر سب کے سوچ کر ، انہیں سمجھ کر قلم اور کاغذ کے حوالے کر نا اور اس کے بعد اپنی اسی تحریر کو پڑھنا یا پڑھانا ، محظوظ ہونا ، فخر کرنا ، رہنمائی لینا اور دیگر کیلئے کرنا ، ہاں یہ سب کہنا بہت آسان ہے تاہم حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ پروفیسر صدف علیم کی ڈائری پر گفتگو و اظہار خیال کے یہ چند جملے وسعتیں سمائے ہوئے ہیں۔ اسی موضوع پر ڈھیر ساری باتیں کرتے کرتے انہوں نے مزید بتایا کہ موجودہ دور میں ڈائری لکھنے کا رجحان اس نہج پر پہنچ چکا ہے جس طرح کسی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں کسی مریض کے آپریشن سے قبل اسے بے ہوشی یا نیم بے ہوشی کی دوا دی جائی اور وہ مریض چند لمحوں کے بعد اس دوا کے اثرات کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ بالکل مجموعی یا نیم بے ہوش ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر اس کے آپریشن کے ذریعے اپنے کام کو باآسانی پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ ڈائری کی حالت ان دنوں نیم یا مکمل بے ہوشی کی عمل سے متشابہ ہے۔
ڈائری کے ہی حوالے سے شعبہ کھیل کی ایک نامور شخصیت اپنا نام نہ لکھنے درخواست پر بتایا کہ بچپن میں اسکول کے کاموں کے ساتھ رات کو سونے سے قبل والدہ ایک بار ضرور پوچھتی تھیں کہ بیٹا ڈائری لکھی ، ہمارے جواب پر وہ سونے کی دعا پڑھنے کی تاکید کرتیں اور چلی جاتیں۔ ان دنوں سے اب تک ڈائری لکھنا موجود دور میرے لازمی کاموں کی حیثیت سے شامل ہے۔ دنیائے کرکٹ جنہیں بوم بوم آفریدی کہتی ہے وہ بچپن میں ، میرے ساتھ ہی کرکٹ کھیلا کرتا تھا ۔ یہ درست ہے کہ اس کا کھیل اچھا تھا وہ میرا بھی تھا لیکن میرے والد کو میرا کھیلنا پسند نہیں تھا اور آفریدی کے والد اور بڑے بھائی کو ا ن کا کھیلنا پسند تھا ۔ آج آفریدی کہاں پر ہے اور میں کہاں پر ۔ 45 بہاریں دیکھنے کے بعد بھی میں کرکٹ کھیلتا ہوں اور یہ بات بارہا اپنی ڈائری میں لکھ چکا ہوں کہ میں اب بھی آفریدی سے اچھا کھلاڑی ہوں۔ اگر مجھے موقع ملا یا آج بھی مل جائے تو ملک کا نام کرکٹ میں مزید بلند کردوں گا۔
اس وقت سے آج تک انہی خیالات کو رات سونے سے قبل میں اپنی ڈائری میں منتقل کر دیا کرتا تھا ۔ میری متعدد ڈائریاں آج بھی بڑی تعداد میں میرے پاس موجود ہیں۔ انہیں نہ صرف میں خود بسا اوقات پرح لیتا ہوں بلکہ میرے بچے بھی انہیں شوق سے پڑھتے ہیں اور ان کے ااس پڑھنے کے شوق کے باعث اب وہ بھی باقاعدگی سے ڈائری لکھتے ہیں۔ لہذا اس حوالے سے میں یہبھی عرض کرنا چاہوں گا کہ بیسیوں ٹی وی چینلز ، اخبارات اور زندگی کی بے جا مصروفیات کے سبب ڈائری لکھنے کا شوق بہت حد تک کم تو ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا ۔ یہ نہ ختم ہونے والا کام ہے جو جاری بھی رہے گا اور اس کی افادیت بھی بڑھے گی۔
اسکول کے پرنسپل جن کی عمر 35برس تھی معاذ الملک ان کا نام تھا انہوں نے کہا کہ بچپن سے آج تک ڈائری لکھتے ہیں لیکن ان کے لکھنے کا انداز ذرا منفرد ہے ۔ انہوں نے بتا یا کہ وہ اپنے غم اور غصے کی کیفیت کو قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل کر دیا کرتے تھے اور آج تک ہیں۔ یہ چونکہ ایک اچھا اور مثبت اقدام ہے اس لئے ایک ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے میں اساتذہ اور طلبہ کو بھی ڈائری لکھنے کی لقین کیا کرتا ہوں ۔ اس چھوٹی سی کاوش کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک استاد محترم نے بچوں کو ڈائری لکھنے کا اس قدر عاد ی بنا دیا ہے کہ وہ بچے ڈائری میں یہاں تک لکھتے ہیں کہ انہوں نے آج نماریں کس قدر ادا کیںاور مطالعہ قرآن و حدیث کی کیفیت کیا رہی۔ معاذ صاحب نے کہا کہ ادیبوں ، شعراء کرام کے ٹی وی چینل پر پروگرامات پہلے ہی کم ہوتے ہیں اور جو پروگرام ہوتے ہیں ان کی بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ ان میں ادب اور اصل شعر سامنے نہیں آتا ۔ لکھنے کی تاکید تو درکنار وہ خود بھی اس عادت سے کوسوں دور دیکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں ایک جیلر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے والے اور اس وقت کے ایک سینئر صحافی و لکھاری نے کہا کہ ڈائری کو وہ زندگی کا لازمی جز سمجھ کر لکھتے رہے ہیں۔ ایک جیلر کی حیثیت سے اپنے فرائض نبھاتے ہوئے بھی ڈائری لکھتا تھا لیکن اس لکھائی میں فرائض کی باتیں ، راہ میں حائل رکاوٹیں ہرگز نہیں لکھتاتھا بس اپنی زندگی کے احساسات و جذبات کو کسی اور کے سامنے لانے کے بجائے کاغذ پر ہی منتقل کر دیاکرتا تھا ۔ایک نہیں کئی کئی صفحات تک بھر دیا کرتا تھا ۔ اب عالم یہ ہے کہ جدید دور ہے اس لئے ڈائری تو نہیں لکھتا ایس ایم ایس کرتا ہوں اور اکثر اوقات تو ایس ایم ایس کرتا چلا جاتا ہوں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کے باعث اب یہ ڈائری کا ذوق و شوق اختتام پذیر ہے۔
شہر قائد کے ایک بڑے ہسپتال میں انتظامی امور کے ذمہ دار نے کہا کہ ڈائری لکھتا تھا اب نہیں بس یہ بات بتا سکتا ہوں کہ اس ڈائری لکھنے کے شوق یا ضرورت میں ایک بار 22 صفحات لکھے جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ اب ڈائری تو نہیں لکھتا اس کی نوبت ہی نہیں آپاتی پہلے جولکھنا کرتا تھا وہ کہا یا بولا نہیں کرتا تھا لیکن اب تو صورتحال یہ ہے کہ کہنے اور بولنے سے فرصت ہی نہیں ملتی لکھوں گا کیسے۔ لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ لکھائی ایک بڑی نعمت ہے جس کی بچوں کو بچپن سے عادت ڈالنی چاہئے اس کے مثبت اثرات عملی زندگی میں سامنے آتے ہیں۔
ممتاز شاعر مزمل علی نے کہا کہ ڈائری لکھنا اور وہ بھی اشعار کے بغیر عجب معاملہ ہے لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاعری کے اس مقام پر ہم اس ڈائری کیباعث ہی پہنچے ہیں ۔ چھوٹے اشعار ، بند و قطعات اور پھر پوری پوری نظمیں اور غزلیں پہلے ڈائری ہی میں لکھتا تھا ۔ کسی کے سامنے پیش کرنے کا شوق اور محفلوں میں سنانے کا موقع ڈائری ہی کے ذریعے پورا ہوتا تھا۔
مثبت اور منفی انداز میں اپنے خیالات کا اظہار دیگر متعدد شخصیات نے بھی کیا ۔ کوئی باقاعدگی سے لکھنے کا شوقین اور کوئی لکھنے کا ذمہ دار ڈائری کو سہار ا بنایا کرتے ہیں۔ اکثریت کی رائے یہی رہی کہ یہ رجحان اب اختتام کی جانب گامزن ہے ۔ تاہم اسے کو روکا جانا چاہئے ایک منظم منصوبہ بندی کر کے اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں ۔تعلیمی اداروں ، ذرائع ابلاغ ،ادیب و شعرا ء سبھی ہی کو اس شعبے کے برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کیلئے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ لکھیں گے تو ڈائری کا سفر جاری رہے گا اور لکھنا ختم یا بند کردیں گے تو ڈائری کا یہ سفر بھی ختم ہو جائیگا۔ لہذا سفر کو روکنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com