لاہور (ویب ڈیسک) میں تو پہلے کہتا تھا کہ اس ملک کے مسائل کا حل بلکہ واحد حل نجات دہندہ آصف زرداری کے پاس ہے۔ماضی میں جس محنت شاقہ سے انہوں نے قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالا یہ ان کا کارنامہ ہے یہ جو ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں نامور کالم نگار ایثار رانا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ نجات دہندہ اول آصف زرداری کی محنت کا ثمر ہے۔ بڑے میاں صاحب کو آج تک خلائی مخلوق کا نہ بتا سکے ہمیں امید ہے کہ مونا لیزا جیسی مسکراہٹ والے آصف زرداری ضرور بتائیں گے کہ انہیں یہ اشارے کہاں سے ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے ہم ان کی روحانی طاقت کو کیسے چیلنج کر سکتے ہیں۔ دس سال وہ قید رہے اور ان پر ایک الزام ثابت نہ ہو سکا ایسا چمتکار ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات ہوں گے اور صرف پیپلزپارٹی جیتے گی تو ہمیں مان لینا چاہئے۔ وہ کسی طرح مہاتیر محمد سے کم نہیں اور اگر ان کے ساتھ نیلسن منڈیلا جونیئر ایک بار ماضی کی طرح مل جائیں تو یقین کریں پاکستان اقوام عالم میں پھر وہی رفعت پالیگا جو نجات دہندگان اول اور دوئم کے دور میں تھی۔ چھوڑیں ایک لاکھ پچپن ہزار فی کس عالمی نادہندگان کی بات، یہ دیکھیں کہ رام لکشمن کی جوڑی نے ہر پاکستانی کو گھر بیٹھے ککھ پتی سے لکھ پتی بنا دیا۔ کرائیں جی بار بار الیکشن کرائیں پیپلزپارٹی آئے یا مسلم لیگ یا پی ٹی آئی، مرنا اس غریب عوام نے ہی ہے، پاکستانی جمہوریت ایک ایسا کنواں ہے جس میں سے آپ ہر پانچ سال بعد کیا ہر ماہ بھی انتخابات کے ڈول بھر بھر کے نکالیں نظام کی بدبو سڑاند کبھی بھی ختم نہیں ہو گی کیونکہ سب بس بالٹیاں بھر کے نکالنے پر یقین رکھتے ہیں۔ کتے کو کوئی بھی ہاتھ ڈالنے پر تیار نہیں۔ مہنگائی ہے کہ سر چڑھ کر تاتا تھیا کر رہی ہے۔ بے روزگاری جس طرح مہنگائی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے میں تے میرا دلبر جانی گا رہی ہے خوب سماں بندھا ہے لوگ خود کشیوں کی ’’ویلیں‘‘ کرا رہے ہیں ۔ نئے پاکستان کی کھڑکی سے دیکھیں راوی چین ہی چین بلکہ روس اور امریکہ امریکہ پکا رہا ہے۔ پا رک میں ایک رومانٹک جوڑا داخل ہوا لڑکے کو ٹھوکر لگی گرا اور سر پھٹ گیا۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر محبوبہ کی طرف دیکھا(فلموں میں اکثر ہیروئن ایسے موقعوں پر اپنا دوپٹہ پھاڑ کر ہیرو کے وسیع ماتھے پر باندھتی ہے ) لڑکی بولی سوچیں وی نہ ، ہزار روپے کا نواشفون دا دوپٹہ لیتا اے۔ بھائی ابھی تو پکچر باقی ہے۔ نجومی بولا شادی کے پہلے دو سال آپ کے سخت مشکلات کے ہونگے لڑکا بولا پھر نجومی بولا فیر توانوں عادت ہو جائے گی، سو میرے شناختی کارڈ ہولڈر معزز پاکستانیو ہمت کرو گھبراؤ نہیں پہلے دو سال سخت اذیت کے ہیں ان سے جو بچ گئے انہیں اس کی عادت ہو جائے گی۔ یہ صحافی بھی عجیب مخلوق ہیں بھئی کیا ہوا اگر ہمارے میاں صاحب کے گارڈ نے ڈیوٹی انجام دینے والے ایک صحافی کو ’’تونی‘‘ چاڑھ دی۔ ویسے کونسا ہمیں روزگارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارا تو کام ہی سڑکوں پر احتجاج کرتے کرتے مر جانا ہے، چراغ تلے اندھیرا دنیا بھر کے ظلم و ستم اخبارات میں چھاپنے اور ٹی وی پر نشر کرنے والے اپنے ظلم کی آواز کہیں نہیں پہنچا سکتے ہیں سچ ہے ملاح کا حقہ ہمیشہ سوکھا رہتا ہے۔ سو میرے پیارے معصوم صحافیوں اگر میاں صاحب کے گارڈ نے آپ کو پھنٹی لگا دی تو اس پر شکر ادا کرو زندہ رہ کر آپ نے کونسا کوئی کارنامہ انجام دے دینا ہے۔ ویسے بھی میاں صاحب اب بیچارے ہم جیسوں پر ہی ہاتھ سیدھا کر سکتے ہیں۔ باقی جگہ تو اب انہیں رونے کی بھی اجازت نہیں۔ بلیو ں کی ریس میں صومالیہ کی بلی پہلے نمبر پر آ گئی۔ صحافی نے بلی کے مالک سے کہا کہ ایک قحط زدہ ملک کی بلی اتنی صحت مند کیسے ہے وہ بولا جناب یہ آپ کے لئے بلی ہے ہمارے ملک کا شیر ہے۔ اللہ رحم کرے ایسے مظلوم اور بے بس شیر وں پر، چلو کٹورج کے کٹو ہم رہ گئے ہیں نہ آپ کی چپیڑیں کھانے کیلئے، ہاکی میچ کے بعد کوچ نے اپنے کھلاڑی کو کہا منحوس تم نے اپنی ٹیم کی طرف ہی چار گول کر دیئے وہ بولا سر جی دوسری ٹیم مینوں گول کرن نئی دیندی سی۔ چلیں بھائی دوسری طرف تو آپ کی چلتی نہیں ہم پر چلا لیں۔ ہمارے پیارے وزیر اعظم نے اس بار تو ایسا یوٹرن لیا ہے کہ خود اپوزیشن گھوم کے رہ گئی۔ میاں شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ ہمارے فواد چوہدری ہاتھ ملتے رہ گئے لیکن ان کی کون سنتا ہے۔ ان کے دل کے ارمان آنسوؤں میں ہی بہہ گئے۔ لیکن ہمیں امید ہے فواد چوہدری اسے دل پر نہیں لگائیں گے ویسے بھی ایوان وزیر اعظم میں وزارت اطلاعات کے ساتھ جو چھیڑ خانیاں ہو رہی ہیں۔ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جو یہ لوگ مریم نواز بی بی جیسے انداز میں وزارت اطلاعات کو بالا بالا بلکہ بلند و بالا انداز میں گھسیٹ رہے ہیں آنے والے دنوں میں جب میڈیا سود سمیت واپسی کریگا تو ذمہ دار بھی وہی ہونگے، دو دوست جا رہے تھے ایک کو سونے کی انگوٹھی ملی، دوسرا بولا لو جی ہماری تو موجیں ہو گئیں پہلا انگوٹھی انگلی میں ڈالتے ہوئے بولا ہماری نہیں صرف میری، اتنے میں شور اٹھا انگوٹھی چور انگوٹھی چور، انگوٹھی والا گھبرا کے بولا یار اسی پھنس گئے پہلا دوست بولا اسی نہیں صرف تسی پھنس گئے۔ شیخ رشید کا آصف زرداری پر غصے ہونا بنتا ہے ۔ ایک بار زرداری صاحب نے شیخ صاحب کو جیل کی طویل سیر کرائی تھی۔ شیخ صاحب کا غصہ سمجھ آتا ہے انہوں نے اپنی زندگی میں کس کس کو نہیں بھگتایا۔ ضیاء الحق نواز شریف جونیجو، مشرف ، عمران خان کون ہے جو ان کی مصنوعی زلفوں کا اسیر نہیں ہوا۔ شادی کے وقت سردار جی نے بیگم سے کہا مجھ سے پہلے کتنے مردوں سے تعلق رہا ہے۔ بنتو نے سر جھکا لیا۔ سردار جی بولے گھبراؤ نہیں ڈرو نہیں سچ سچ بتا دو۔ بنتو بولی مریں چپ وی کر مینوں گن تے لین دے۔ شیخ رشید عمران خان کے بھائی ہیں اس کا اعلان وہ خود کرتے ہیں مجھے تو عمران خان پر پیار آتا ہے۔ کتنے وفادار گھبرو بھائی ہیں ان کے کہتے ہیں بھرا بھراواں دی باہواں ہوتی ہیں(بھائی بھائی کے بازو ہوتے ہیں) بس مجھے ڈر ہے کہ عمران کے بعد اقتدار میں کوئی نیا آنے والا یہ نہ کہہ دے گھبر سنگھ یہ بازو مجھے دے دے۔ گھبر دے نہ دے بازو خود اٹھ کر بولے گا نیڑے آ نیڑے آ ظالما وے میں ٹھر گئی آں