ایک ہفتے قبل رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کے بعد تنظیم کے مبینہ عہدیدار اور کارندوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا ، کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں اور صوبوں میں بھی تنظیم کے خلاف چھاپہ مارکارروائیاں کی جارہی ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب گلزار ہجری ، گلستان جوہر ، گلشن اقبال اور نارتھ کراچی میں چھاپے مار کر محمد ثاقب سمیت 4 افراد کو حراست میں لے لیا۔
سی ٹی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ تفتیش تو سی ٹی ڈی کے سپردکی گئی ہے اور مقدمات بھی درج ہوئے تاہم خواجہ اظہار الحسن پر حملے اور سچل میں پولیس مقابلے کی تفتیش کون کررہا ہے یہ تو سی ٹی ڈی کے اعلیٰ افسران کے علم میں بھی نہیں جبکہ شبے میں زیرحراست افراد بھی سی ٹی ڈی کے پاس نہیں ہیں تاہم ڈسٹرکٹ ملیر کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملک الطاف نے رابطے پر بتایا کہ گلزار ہجری پولیس مقابلے کی تفتیش سی ٹی ڈی کر رہی، ملیرانویسٹی گیشن پولیس کو اس تفتیش کا ٹاسک نہیں دیا گیا۔
ذرائع کا کہنا تھاکہ ایک انٹیلیجنس ونگ، ایک حساس ادارہ ، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کی اسپیشل پارٹی انصار الشریعہ تنظیم کے خلاف تفتیش اور چھان بین کر رہی ہے، سی ٹی ڈی اور ڈسٹرکٹ انویسٹی گیشن پولیس کو اس تفتیش میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ انصارالشریعہ تنظیم کے نیٹ ورک کو کسی حد تک توڑ تو دیا گیا ہے تاہم گرفتار افراد کے اہلخانہ اور رشتے داروں نے سوشل میڈیا میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا شروع کر دیا ہے کہ پولیس اور دیگر ادارے انصار الشریعہ تنظیم کے نام پر طلبا اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کو گھروں سے گرفتار کر رہے ہیں اور انھیں مختلف ہتھکنڈوں سے ہراساں بھی کر رہی ہے۔