آسٹریلیا کے سٹیو وا کو بچپن میں کوئی مسئلہ نہیں تھا وہ والدین کے ساتھ کھیلتا کودتا، ہنستا مسکراتا شرارتیں کرتا بڑا ہوا، اسے بہترین غذا، اچھی فضا، بہترین تعلیم، پرامن ماحول، مختلف کھیلوں کی بہترین سہولیات سمیت تمام وہ چیزیں ملیں جن کی موجودگی میں اسکی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتیں، اسے کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوئی کہ اگر وہ کھیلوں میں چلا گیا تو اسکے گھر والوں کو کھانے پینے کے لیے نہیں ملے گا، اسکے گھر والوں کو بھی یہ مسئلہ نہیں تھا کہ بیٹا کھیلوں میں لگا رہا تو کمائے گا کون، کاروبار زندگی کیسے چلے گا، سٹیو وا کو کبھی یہ سوچ بھی نہیں آئی ہو گی کہ اگر سارا لڑکپن جوانی کرکٹ میں گذر گئی تو باقی زندگی کیسے گذرے گی، گھر والوں کو کون سنبھالے گا، والدین کو صحت کے مسائل ہو گئے تو ڈاکٹرز کی فیس اور دوائیوں کے پیسے کہاں سے آئیں گے، سٹیو وا کو یہ فکر بھی لاحق نہیں ہوئی ہو گی کہ کرکٹ کھیلتے کھیلتے ملازمت کی عمر گذر گئی تو بعد میں کیا کروں گا۔ اسکا مستقبل ہر لحاظ سے محفوظ تھا کیونکہ ریاست اسکے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ اسے تعلیم، کھیل اور صحت کے یکساں اور بہترین مواقع فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سٹیو وا نے کرکٹ گھر کا کچن چلانے اور چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھانے اور والدین کو سنبھالنے کے لیے نہیں کھیلی۔ وہ کرکٹ نہ بھی کھیلتا کسی اور کھیل میں بھی جاتا تو اسکا معاشی مستقبل محفوط ہوتا اسے اہلخانہ کو سنبھالنے کی پریشانی نہ ہوتی۔ وہ کرکٹ کھیلتا یا نہ کھیلتا اچھی زندگی گذارتا دوسری طرف پاکستان کا انضمام جو سٹیو وا سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ اسکی زندگی آسٹریلیا کے سٹیوا سے مکمل طور پر مختلف ہے، یہاں اسے وہ تمام سہولیات میسر نہیں ہیں جن کے مزے سٹیو وا بچپن سے لیتا آ رہا ہے۔ یہاں کا انضمام کرکٹ اس لیے کھیلتا ہے کہ کسی محکمے میں بہت اچھی نوکری ملے گی، لاکھوں تنخواہ ہو گی، معیار زندگی بلند ہو گا، اچھے کپڑے ہونگے، گھر کا کچن چلے گا، بہن بھائی پڑھیں گے، والدین کا خیال رکھنے کے وسائل پیدا ہونگے، معاشی مستقبل محفوظ ہو گا، بیوی بچوں کی زندگی آسان ہو جائے، رشتہ داروں کے کام آ سکوں گا اور قومی ٹیم میں چلا گیا تو وارے نیارے ہونگے، کرکٹ بورڈ سے الگ پیسے ملیں گے، محکمے سے الگ تنخواہ ملے گی۔ قومی ٹیم میں آنے سے محکمانہ ترقی بھی مل جائے گی۔ زندگی آسان تر ہوتی جائے گی۔ آج ہم سٹیو وا کے ملک کی کرکٹ کے معیار کو بنیاد بنا کر اپنا سارا ڈھانچہ بدلنے چلے ہیں جبکہ اصل مسئلہ معیار کے بجائے طرز فکر، طرز زندگی، ریاست کی ذمہ داریوں، شہری کے حقوق اور مکمل نشوونما کا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ صرف کھیلنے والوں کی تعداد کم کر کے ہمارا انضمام سٹیو وا کا مقابلہ کر سکتا ہے جبکہ ہمارے انضمام اور انکے سٹیو وا کے ہر کام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ہمارے انضمام کی بذریعہ کرکٹ پرآسائش زندگی دیکھ کر سینکڑوں نوجوانوں نے کرکٹ میں قدم رکھا، سب کا مقصد اس کھیل کے ذریعے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانا تھا۔ یوں یہ سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد کرکٹ کے میدانوں میں نظر آتی ہے کیونکہ انہیں حکومت کے بجائے کھیل کے میدان سے اور اس کھیل سے جڑے اداروں میں اپنا مستقبل نظر آتا ہے، کل تک کا یوسف، ماضی کا کامران اکمل، نوے کی دہائی کا یونس خان، سن دو ہزار کا شعیب ملک، انیس سو اسی کا سلیم ملک، انیس سو پچاسی کا سلیم جعفر، انیس سو نوے کا عاقب جاوید، انیس سو پچانوے کا راشد لطیف، دوہزار سات کا مصباح الحق ان سب کو اداروں نے سنبھالا معاشی طور پر سہارا دیا اور کھیل کے میدانوں سے جوڑے رکھا۔ انکے کھیل سے جڑے رہنے کی ایک بڑی وجہ مستقل مناسب آمدن تھی جسکی وجہ سے ناصرف ان کرکٹرز کے اپنے اخراجات پورے ہوتے تھے بلکہ یہ مسلسل معاشی طور پر مضبوط بھی ہوتے رہے۔ لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہونے کو ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ ان دنوں ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام میں تبدیلی کے لیے کام کر رہا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر فرسٹ کلاس کرکٹ کو چھ ٹیموں تک محدود کرنے کے منصوبے پر کام کو رہا ہے۔ اس منصوبے پر عملدرآمد سے محکمانہ کرکٹ کا خاتمہ ہو جائے۔ وہ محکمے جو برسوں سے کرکٹرز کو معاشی طور پر مضبوط بناتے ہوئے کھیل کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے تھے ان کا کردار ملکی کرکٹ میں ختم ہو جائے گا۔ محکموں نے ایک عرصے تک کرکٹرز اور انکے اہلخانہ کو مالی طور پر مستحکم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی رکھی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو کئی نامور کرکٹرز ملے آج کامیاب کرکٹرز پر نظر ڈالیں تو اکثریت محکموں کے کردار کی تعریف کرتے دکھائی دیتی ہے۔
پی سی بی کے اس منصوبے کی مخالفت میں جاوید میانداد کھل کر سامنے آئے ہیں، سرفراز نواز تو گذشتہ کئی ماہ سے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ عبدالقادر نے بھی واضح الفاظ میں محکمانہ کرکٹ کی حمایت کی ہے۔ کامران اکمل اور وہاب ریاض بھی محکمانہ کرکٹ کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے گورننگ بورڈ کے پانچ اراکین نے بھی سترہ اپریل کو ہونیوالی بورڈ میٹنگ میں اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ نعمان بٹ کی سربراہی میں چار ریجنل نمائندوں اور ایک ایک محکمے کے نمائندے نے محکمانہ کرکٹ کے خاتمے کی قرارداد پر دستخط کیے ہیں۔ اس نظام کو بچانے کے لیے آوازیں پارلیمنٹ سے بھی اٹھ رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سب آوازیں ملکر کرکٹ دوست نظام کو بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے انضمام کو سٹیو وا بناتے بناتے منصور اختر اور خرم منظور سے بھی محروم ہو جائیں!!!!!!!