لاہور (ویب ڈیسک) بیماری اور درد کے مارے مریض کو اگر یہ خبرملے کہ اس کے بیٹے نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی ہے۔فوراً ہی اسے ایک بہترین ملازمت کی پیشکش بھی ملی ہے تو کیا وہ شاد نہ ہوگا لیکن کیا اس سے درد اور بیماری جاتی رہے گی ؟ قطعاً اس میںنامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کی تقریر ایک شاہکار تھی۔صرف پاکستان ہی نہیں تمام عالم اسلام کی امنگوں اور جذبات کی ترجمان۔کہا جاتا ہے کہ کسی عام سے بے گناہ آدمی کو دو تھپڑ رسید کر دئیے جائیں تو اس کے اندر کا خطیب جاگ اٹھتا ہے۔ ممکن ہے پھر ایسی روانی سے وہ بات کرے کہ خطابت کا ہنر رکھنے والے بھی حیران رہ جائیں۔ پندرہ برس ہوتے ہیں ٹیکسلا میں داخل ہوتے ہوئے خان کی نگاہ ان پہاڑوں پہ پڑی ،بجری بنانے والے جنہیںادھیڑتے رہتے ہیں۔’’یہ۔۔۔‘‘چوٹیوں کی طرف اشارہ کرتے توسف سے اس نے کہا۔ایسا گہرا ملال اس کے انداز میں تھا کہ چوہدری نثار علی خان ملال میں شریک ہو گئے۔کچھ دیراس بارے میں وہ بات کرتے رہے۔جس طرح ایک ہی پتھر سے چوٹ کھانے والے باہم درد بٹا رہے ہوں۔اسی طرح ایک بار بنی گالا کی پہاڑیاں اترتے ہوئے سر ِ راہ چہچہاتے تیتر پہ نگاہ پڑی تو اس کے لہجے میں گداز اتر آیا۔’’دیکھو ، یہ دیکھو۔۔۔۔‘‘ اور اس کی بدن بولی نے یہ کہا : فطری حسن کے بغیر ، بادلوں ، بچوں ، بارشوں ، پھولوں ، درختوں اور پرندوں کے بغیر یہ دنیا ، یہ زندگی کیسی بے رنگ ہوتی۔اپنی کتاب ’’ میں اور میرا پاکستان ‘‘میں قدرتی مناظر کا والہانہ انداز میں اس نے ذکر کیا ہے۔ شمال کی بلندیوں پر ایک زمردیں جھیل اور اس پر تاروں بھرا آسمان۔ پھر شہر لاہور کا ماتم کیا ہے : میاں میراور علی بن عثمان ہجویری ؒکےدیار میں کیسی فرحت بخش ہوا کبھی بہا کرتی۔اب یہ سیمنٹ اور سریے کا ایک جنگل ہے۔
ماحولیات کے باب میں خان کی فکرمندی سچی اور حقیقی ہے ، ظاہری اور سطحی نہیں۔پھر پراپرٹی ڈیلرڈونلڈ ٹرمپ ایسے بے حس لیڈروں کی وجہ سے اندیشوں کے سنپولئے رینگ رہے ہیں۔ خلقِ خدا پریشان ہے کہ کبھی یہ سنپولئے اژدھے نہ بن جائیں۔ پچھلے دنوں سولہ برس کی ایک معصوم سی بچی ،دنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ماحولیات پرغیر ذمہ دارانہ موقف کی وجہ سے امریکی صدر کونفرت کی نگاہ سے اْس نے دیکھا۔ دنیا فکر مند ہے اور اس فکرمندی میں شریک ہوکر خان نے ہوش مندی کا مظاہرہ کیا۔یہی زیبا تھا ، سلیقہ مندی کا تقاضا یہی تھا۔کئی دوسری رہنمائوں نے بھی یہی کیا ، یہی کرنا چاہئے تھا۔ ایسا لگتا ہے موزوں لوگوں سے مشورہ تھا۔ترتیب بھی ٹھیک رہی۔ پہلے ماحولیات کہ آدم کی اولاد کا دم گھٹنے لگا ہے۔پھر اسلاموفوبیا اور کشمیر۔ بھارتی درندے دندنا رہے ہیں اور عالمی نظام تشکیل دینے والے طاقتور ملک تجارت کے گوشوارے مرتب کرنے میں منہمک۔ اس پربہترین مثال اس نے دی :کپڑے اتارنے کی بنتِ حوا کو اجازت ہے ،باوقار لباس پہننے کی نہیں۔وہی بات جو اکبر الہ آبادی کے پیرائے میں اقبال نے کہی تھی: اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے زندگی کی سچائیوں سے مفرور، مالی اور مادی ترجیحات میں الجھا ہوا آدمی جو گرد وپیش میں زہر گھول رہا ہے۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اپنی حکمت کے خم و پیچ میںالجھا ایسا آج تک فیصلہ ِ نفع وضرر کر نہ سکا سید الطائفہ جنید کا وہی قول : ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔استثناکے سوا آدمی کی تر جیحات ہمیشہ ادھوری۔ ظاہر ہے کہ تقریر کا سب سے زیادہ زوردار حصہ کشمیر پہ تھا۔ اسی پرداد کے ڈونگرے برس رہے ہیں اور بھی کچھ دن اسی شد و مد سے برستے رہیں گے۔اکا دکا کے سوا نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے حامی چپ سادھے ہیں اورعمران خان کے جیالے حضرت مولانا فضل الرحمن پہ چڑھ دوڑے ہیں : دیکھو ، دیکھو ہمارا لیڈرعالم اسلام اور کشمیر کا مقدمہ لڑ رہا ہے اور مولوی صاحب کو دھرنے کی سوجھی ہے۔ نون لیگ کے حامیوں میں سے ایک نے یہ کہا:عمران خان بہت اچھے وزیر خارجہ ہیں۔ وزیر اعظم کوئی دوسرا تلاش کرنا چاہئے۔ زیادہ مضحکہ خیز بات بلاول بھٹو نے ارشاد کی : وزیر اعظم کی تقریر مایوس کن تھی۔مایوس کن؟ ایسا موثرخطاب خود ذوالفقار علی بھٹو نے بھی شاذ ہی کیا ہوگا ، حالانکہ وہ بہت پڑھے لکھے تھے ، زبان پہ دسترس زیادہ تھی اور مانے ہوئے خطیب۔ عوامی ردعمل پہ سب سے زیادہ رنج شاید مولانا فضل الرحمن کو پہنچا ہویا نون لیگ کے قلمکاروں کو۔یہ تاثر قائم کرنے پہ جو تلے تھے کہ مولانا فضل الرحمن کے باریش جانبازقلعے کی دیواریں توڑ ڈالیں گے تو فاتحانہ شریف خاندان کا لشکر اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ عمران خان کی تقریر کا گہرا اور شدید تاثر مسلسل برقرار رہتا ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ پھیکا پڑتا جائے گا۔ حکم لگانا مشکل ہے۔
بہرحال اس میں ہرگزکوئی شبہ نہیں کہ پرسوں اسی طرح لوگوں کے دل اس نے جیت لئے جیسے 1992ء میں عالمی کپ جیتا تھا۔ ایک ایسی قوم اس پہ کیوں شادماں نہ ہو 1971ئسے ، جواندیشوں کے سیاہ بادلوں تلے جیتی آئی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ بھوک ، بیماری اور جہالت بڑھ رہی ہے۔ تعلیمی ادارے تباہ ہوتے جارہے ہیں۔سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ایسے طلبا نکل رہے ہیں ،درست ہجوں کے ساتھ جو سادہ سی اردو عبارت بھی نہیں لکھ سکتے۔ سیاست اور افسر شاہی سر سے پائوں تک کرپٹ ہو چکی۔ایک برس میں دس لاکھ آدمی بے روز گار ہو چکے اور مزید کے بے روزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔گھروں کے سامنے گلیوں میں کھیلتے بچے اغوا کرلئے جاتے ہیں اور پھر ان کی لاشیں کوڑے کے ڈھیروں سے ملتی ہیں ، خلق ِ خدا چیختی ہے مگر تدارک کاقرینہ کوئی نہیں ، اندمال کوئی نہیں۔اپوزیشن ہے کہ احتجاج اور اعتراض کے سوا کوئی اثاثہ نہیں رکھتی ، کوئی جامع منصوبہ تو کیا تجاویز تک نہیں۔ادھر حکومت ہے کہ ٹامک ٹوئیاں مار تی رہتی ہے۔سمندر پار روانہ ہونے سے پہلے ایک آرڈینس کے مسودے پر وزیر اعظم نے دستخط کر دئیے تھے ،جس کے تحت ڈپٹی کمشنر مقرر کئے جاتے اور ان ڈپٹی کمشنروں کو1861ء کے سے اختیارات حاصل ہوتے۔وہ تھانوں پہ چھاپے مارتے اور ضرورت پڑتی تو متبادل پولیس تشکیل دی جاتی۔ بیماری اور درد کے مارے مریض کو اگر یہ اطلاع ملے کہ اس کے بیٹے نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی ہے۔فوراً ہی اسے ایک بہترین ملازمت کی پیشکش بھی ملی ہو تو کیا وہ شاد نہ ہوگا لیکن کیا اس سے درد اور بیماری جاتی رہے گی ؟ پسِ تحریر:وزیر اعظم نے اگر ڈی سی او کو پھر سے ڈپٹی کمشنر بنانے کا فیصلہ کیا ‘ ضلعی پولیس پر اسے اختیار بخش دیا گیا ‘ تو 25سے 30 پولیس افسر مستعفی ہو سکتے ہیں۔ ابھی ابھی ان کے ایماء پر یہ بات ایک ذمہ دار افسر نے ناچیز کو بتائی ہے۔