اکیس برس قبل مقبوضہ کشمیر کےعلاقے ترال کے چھوٹے سے دیہات داد سرا کے تعلیم یافتہ گھرانے میں ایک بچہ پیداہوا، 4 بہن، بھائیوں میں اُس کا نمبر دوسرا تھا۔ باپ شریف آباد کے ہائیر سکینڈری اسکول میں پرنسپل تھا۔ ماں شعبہِ سائنس میں پوسٹ گریجویٹ تھی اور گاؤں میں بچوں کو قرآن پڑھاتی تھی۔ والدین نے بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ اُنہیں اخلاق، رواداری، حُسنِ سلوک، بھائی چارگی، حقوق العباد،عاجزی، امن اور اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے کی تربیت دی۔ تمام بچے کلاس ٹاپر تھے، اساتذہ، محلے دار، اہلِ علاقہ، دوست احباب، رشتے دار، یہاں تک کہ دشمن بھی بچوں کی تعریف کرتے اور ہر اچھے کام کیلئے انہیں مثال بنا کر پیش کرتے تھے۔
سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک 2010ء میں وقت نے کروٹ لی اور اِس خاندان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آگیا، بچہ 15 سال کا ہوچکا تھا۔ وہ ایک دن اپنے بڑے بھائی اور دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ بھارتی فوج نے انہیں روکا، تلاشی لی اور بدتمیزی کی۔ اِس دوران پولیس کے ساتھ بحث ہوگئی۔ پولیس نے انہیں پیٹنا شروع کردیا۔ بڑا بھائی تشدد برداشت نہ کرسکا اور بے ہوش ہوگیا۔ 15 سالہ نوجوان اور اُس کے ساتھی نے بھاگ کر جان بچائی، نوجوان وادی کے باعزت گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ یہ ذلت برداشت نہ کرسکا، اور اُس نے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ 15 سال کی عمر میں اُس نے بغاوت کا علم بلند کیا اور دسویں جماعت ادھوری چھوڑ کر گھر سے بھاگ گیا۔ ایک سال بعد خبر آئی کہ اُس نے حزب المجاہدین میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اُس نوجوان کی حزب المجاہدین میں شمولیت نے کشمیریوں میں آزادی کی نئی روح پھونک دی۔
اُس وقت وادی کی 60 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم تھی۔ 1990ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کشمیر کی تحریکِ آزادی وہاں کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں آنے لگی۔ نوجوان جوق در جوق اِس تحریک میں شامل ہونے لگے۔ 2013ء میں مودی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اُس نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیریوں کو حاصل خصوصی تشخص ختم کرکے اُسے دیگر بھارتی ریاستوں جیسا قرار دینے کا مطالبہ کردیا۔ یہ مطالبہ وادی کیلئے ناقابلِ قبول تھا۔ وادی میں نفرت کی آگ پھر سے بھڑکنے لگی۔ بھارتی فوج نے نفرت کو طاقت سے ختم کرنے کی کوشش کی اور اُس نوجوان کے بڑے بھائی کو تشدد کر کے شہید کردیا۔ بڑے بھائی کی لاش دیکھ کر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور قسم کھائی کہ جو سلوک میرے بھائی کے ساتھ ہوا ہے، میں وہ سلوک روزانہ بھارتی فورسز کے ساتھ کروں گا۔
بدلے کی آگ کی تپش ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ رہی سہی کسر مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز مخلوط حکومت نے پوری کردی۔حکومت نے کشمیری پنڈتوں کیلئے دو نئی کالونیاں اور بھارتی فوج کیلئے سینک کالونیاں بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ کشمیری عوام کو یہ فیصلہ قبول نہیں تھا، وہ نوجوان کشمیری عوام کی آواز بنا۔ جولائی 2016ء کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر ایک ویڈیو پیغام نشر کیا۔
’’ہندوستان کشمیر میں اسرائیلی طرز پر پنڈتوں کیلئے جو نئی کالونیاں تعمیر کررہا ہے، وہ نا قابلِ قبول ہیں۔ یہ کشمیر ہمارا ہے اور اِس پر صرف ہمارا حق ہے اور جو ہم سے ہمارا حق چھیننا چاہے گا، ہم اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیں گے‘‘۔
اِس ویڈیو کے نشر ہونے کی دیر تھی کہ بھارتی فورسز نے نوجوان کی تلاش شروع کردی، اور اُس کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کردی۔ بلاآخر 8 جولائی 2016ء بروز جمعہ جنوبی کشمیر کے جنگلاتی علاقے کرناگ بندد گاؤں میں بھارتی فورسز نے آپریشن کیا اور 21 سالہ نوجوان کو شہید کردیا۔ جی ہاں! آپ کو اب تک اِس نوجوان کا نام معلوم ہوچکا ہوگا۔ یہ تحریک آزادیِ کشمیر، حزب المجاہدین کے پوسٹر بوائے اور کمانڈر شہید برہان مظہر وانی کی کہانی تھی۔ برہان وانی کی شہادت پر بھارتی حکومت نے اُسے دہشتگرد قرار دیا اور پوری دنیا سے اپیل کی کہ ایسے دہشت گردوں کی مذمت کی جائے۔
اب میں ایک اور کہانی آپ کے سامنے رکھتا ہوں، 28 ستمبر 1907ء کو ہندوستان کےعلاقے جڑانوالہ کے چک نمبر 105 جی بی بانگا گاؤں کے سِکھ گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ بہن بھائیوں میں اِس کا نمبر دوسرا تھا۔ باپ کا نام کِشن سنگھ اور ماں کا وِیدیا واٹی تھا۔ باپ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کا رکن تھا اور بچے کی پیدائش پر ہی وہ جیل سے رہا ہوا تھا۔ وہ بچہ آزادی کے نعروں اور انگریزوں کیخلاف نفرت زدہ ماحول میں پروان چڑھا، یہی وج ہے کہ اُس نے 13 سال کی عمر میں تعلیم چھوڑ کر ہندوستان کی تحریک آزادی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی۔ 1926ء میں اُس نے نوجوان بھارت سینا کے نام سے پارٹی بنائی اور بعد ازاں ہندوستان ری پبلک ایسوسی یشن میں شامل ہوگیا۔ 1928ء میں برٹش گورنمنٹ نے ہندوستانی عوام کی خود مختاری کا فیصلہ کرنے کیلئے کمیشن بنایا۔
کمیشن میں بھارتی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان اور اُس کے دوست لال راج پات رائے نے اُس کمیشن کو مسترد کردیا اور انگریز سرکار کیخلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ انگریز فوج نے لال راج کو دہشتگرد قرار دے کر گرفتار کرلیا۔ اُسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں دورانِ حراست 17 نومبر 1928ء کو اُس کی موت واقعہ ہوگئی۔ نوجوان اپنے دوست کی موت کا صدمہ برداشت نہ کرسکا۔ اُس نے انگریز سرکار سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ انگریز فوجی جان سوئونڈر کو قتل کیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اِس واقعے کے بعد نوجوان کی کارروائیاں بڑھتی گئی اور اُسے پکڑنا ناممکن ہوگیا۔ 1929ء میں اُس نے اپنے دوسرے دوست کے ساتھ مل کر سینٹرل لیجسلیٹو اسمبلی پر آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے دستی بموں سے حملہ کیا اور خود کو سرنڈر کردیا۔ جیل میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ مساوی سلوک کیلئے 116 دن بھوک ہرتال کی جس کے بعد اُس کی شہرت پورے ہندوستان اور برطانیہ تک پہنچادی۔
جیل میںسوئونڈر کے قتل کا مقدمہ چلا، اسے پھانسی کی سزا ہوئی اور 23 مارچ 1931ء کو صرف 23 سال کی عمر میں اسے تختہِ دار پر لٹکا دیا گیا۔
جی ہاں آپ کو اب تک اِس نوجوان کا نام معلوم بھی ہوچکا ہوگا، یہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے چشم و چراغ بھگت سنگھ کی کہانی ہے۔ انگریز سرکار نے بھگت سنگھ کو دہشت گرد قرار دیا اور ہندوستانی عوام کو بھگت سنگھ جیسے دہشت گردوں سے دور رہنے اور اُن کے انجام سے ڈرنے کا پیغام بھی دے دیا۔
اب آپ اِن دونوں واقعات کو سامنے رکھیں اور اِن میں مماثلت تلاش کریں، آپ یقیناً حیران ہوجائیں گے۔ برہان وانی ہندوستانی فوج کے خلاف تقریریں اور ترانے سن کر پروان چڑھا تھا اور بھگت سنگھ بھی انگریز سرکار کے خلاف ترانے سن کر جوان ہوا۔ برہان وانی ہندوستانی فورسز کے ظلم سے تنگ آکر 15 برس کی عمر میں تحریکِ آزادی میں شامل ہوا اور بھگت سنگھ 13 سال کی عمر میں ہندوستان کی تحریک آزادی کا حصہ بنا۔ برہان وانی ہندو نواز مخلوط حکومت کی قرار داد اور پنڈت کالونیوں کیخلاف تھا اور بھگت سنگھ برٹش کمیشن کیخلاف تھا۔ برہان وانی نے اپنے بڑے بھائی خالد وانی کے قتل کا بدلہ لیا اور بھگت سنگھ نے اپنے دوست لال راج پات رائے کے قتل کا بدلہ لیا۔ برہان وانی 21 سال کی عمر میں شہید ہوا اور بھگت سنگھ کو 23 سال کی عمر میں پھانسی ہوئی۔ برہان وانی کو ہندوستانی حکومت نے دہشت گرد قراردیا اور بھگت سنگھ کو انگریز سرکار نے دہشت گرد کا لقب دیا۔
نریندر مودی صاحب برہان وانی نے بھی وہی غلطی کی جو بھگت سنگھ نے کی تھی۔ برہان وانی نے کشمیر کی آزادی کا خواب دیکھا تھا اور بھگت سنگھ نے ہندوستان کی آزادی کا خواب سجایا تھا۔ اگر برہان وانی دہشت گرد ہے تو بھگت سنگھ بھی دہشت گرد تھا، جس طرح انگریز فوجیوں کا قتل بھگت سنگھ کیلئے عبادت تھی، اُسی طرح بھارتی فوجیوں کا قتل برہان وانی کیلئے عبادت تھی۔ میری بھارت سرکار سے گزارش ہے کہ آج سے بھگت سنگھ کو تاریخ کی کتابوں میں دہشت گرد لکھنا شروع کردیں یا برہان وانی کو شہید کا درجہ دے دیں اور اگر آج آپ نے یہ فیصلہ نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہندوستان میں صوبوں کی جگہ 35 کشمیر ہوں گے اور دنیا ہندوستان کا نام تک بھول جائے گی۔
بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔