تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
آپ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کافی اختلاف ہے، اس پر انہوں نے خود کہا تھا۔ کیا فرق پڑتا ہے، 20 جنوری ہے ، 26 ہے یا 27 ہے یا 28 ہے تو کیا فرق پڑتا ہے ؟ ویسے میں پیدا 1927 ء میں ہوئی ہوں۔ لیکن عام طور پر ان کی تاریخ پیدائش 20 جنوری ہی لکھی جاتی ہے۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ عینی نے ابتدائی و ثانوی تعلیم دہرہ دون، لاہور اور لکھنؤ میں پائی ، انٹر بھی لکھنؤ کے ایک کالج سے کیا ۔ بی اے ، دہلی کے ایک کالج سے اور پھر ایم اے کے لئے انھوں نے لکھنؤ یونیورسیٹی میں داخلہ لیا۔ جس ماحول میں عینی نے آنکھیں کھولیں ، گھر کا پورا ماحول تعلیم یافتہ ادبی اور کسی حد تک مغربیت کے زیر اثر تھا۔
کم عمری میں انھوں نے کہانیاں لکھنے کی شروع کیں، پہلی کہانی ” بی چوہیا کی کہانی” تھی عینی نے “ایلس ان ونڈر لینڈ” کا ترجمہ کیا یہ غالباً 1939 ء کی بات ہوگی۔ اس وقت عینی کی عمر تیرہ یا چودہ سال تھی۔ ایک افسانہ بعنوان ”ارادے ” اپنے نام سے ”بھیجا۔ اس پر مبلغ بیس روپے کا انعام ملا۔ قرةالعین حیدر کے ابتدائی افسانوں میں ”دیودار کے درخت” اور ”جہاں کارواں ٹھہرا تھا” اچھے افسانے ہیں ، ان میں رومانیت کی بھر پور فضا ہے ۔افسانہ ”اودھ کی شام” میں ہندو ، مسلم اور انگریز کے اختلاط سے وجود میں آنے والے معاشرے کی عکاسی ہے۔
عینی سے ایک صاحب نے 1957ء میں کہا کہ تم منٹو کی طرح کہانی نہیں لکھ سکتیں۔ عینی نے چیلنج قبول کیا اور ”پت جھڑ کی آواز ”لکھی۔ قرةالعین حیدر ایک بے حد مشکل پسند اور منفرد قلم کار تھیں ۔ ان کے افسانوں کے موضوعات ، کردار، ماحول، واقعات، اسلوب، آرٹ اور طرزِ بیان سب کچھ منفرد ہیں، مختلف ہیں ۔قرةالعین حیدر کو اردو ادب کی ‘ورجینا وولف’ کہا جاتا ہے انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں ‘سٹریم آف کونشیئسنس’ تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔
قرةالعین حیدر کے افسانوں کی بنیاد اور مرکزی کردار جاپان کا ہے، کبھی ایران کا اصل میں جہاں جہاں کی سیر قرةالعین حیدر نے کی جو جو مشاہدات کیے ان کو اپنے افسانوں میں ڈھال دیا ،مثلاََ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے ماحول میں انھوں نے ایک ناولٹ بھی لکھا ”چائے کے باغ” جس میں مزدوروں کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ قرةالعین حیدر نے چار افسانوی مجموعے ، پانچ ناولٹ، آٹھ ناول، گیارہ رپورتاڑ کے علاوہ بے شمار کتابیں لکھیں۔ت قریباً گیارہ مختلف زبانوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ چار کتابوں کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ان کے مشہور ناولوں میں’آگ کا دریا’ ، ‘آخرِ شب کے ہم سفر’ ، ‘ میرے بھی صنم خانے ‘ ، ‘چاندنی بیگم’ اور ‘کارِ جہاں دراز’ شامل ہیں۔
ان کے دو ناولوں ‘آگ کا دریا’ اور ‘آخر شب کے ہم سفر” کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے ۔حالانکہ ”آگ کا دریا” کے جواب میں ”سنگم” اور ”اداس نسلیں” لکھے گئے، لیکن پڑھنے والے فرق جانتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ”کارِ جہاں دراز’ ” میں لکھتی ہیںیہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ “اداس نسلیں” کے متعدد ابواب میں ”میرے بھی صنم خانے ”سفینہ غم دل”آگ کا دریا”اور ”شیشے کا گھر”کے چند افسانوں کے اسٹائل کا گہرا چربہ اتارا گیا ہے ۔ خفیف سے ردوبدل کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں۔ لیکن آج تک سوائے پاکستانی طنز نگار محمد خالد اختر کے کسی ایک پاکستانی یا ہندوستانی نقاد کی نظر اس طرف نہیں گئی، نہ کسی نے اشارتاً بھی اس کا ذکر کیا۔
ان کی دوسری شاہکار کتاب ‘آخرِ شب کے ہم سفر’ کے لئے 1989 ء میں انہیں ہندوستان کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ،جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985 ء میں پدم شری اور 2005 میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے ۔مشکل پسند ،منفرد قلم کارقرہ العین حید ر کا 21 اگست 2007 ء کو دہلی میں طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوا۔
قرہ العین حید رکے چند انٹریوز سے چنے گئے چند فقرات جن سے قرہ العین حیدر کو جاننے میں مدد ملتی ہے نظر قارئین ہیں۔ میرے نزدیک ادب برائے زندگی کا نظریہ بہتر ہے ۔کرشن چندر میرا پسندیدہ فن کار ہے ۔اپنا افسانہ جلاوطن مجھے پسند ہے۔ ہمارے ادیبوں کے سامنے کوئی واضح مقصد نہیں۔ کچھ ناقدوں کو زعم ہے کہ وہ ادب میں کنگ میکر ہیں۔میں بنیادی طور پر رومانٹک ہوں۔ ہندوستان میں اردو سیاست کا شکار ہوگئی۔ ہمارے اکثر ناقدین لکیر کے فقیر ہیں۔ بیشتر نقادوں کو فکشن کی سمجھ نہیں۔عام آدمی میرا موضوع کبھی نہیں رہا۔تاریخ ایک بنیادی حقیقت ہے۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال