counter easy hit

گوئیم مشکل وگرنہ گوئیم مشکل

Writing

Writing

پروفیسر: ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
دو ہفتوں سے زیادہ وقت گذر گیا مگر کالم لکھنے کی طرف طبیعت مائل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ دوزخیم کتابوں کی تحریر کا ذمہ بھی میرے سر ہے۔جن پر کام بھی شروع کرچکا ہوں۔ان میں سے ایک میرے روحانی ذوق کی تکمیل کےلئے ہے ۔جس کا کہیں سے کسی معاوضے یااخراجات کے حصول کی نہ تو تمنا ہے اور نہ ہی خواہش ہے۔وہ ہے رحمت ا للعالمین ﷺکی سرتِ طیبہ اور اس کی تکمیل کی خواہش ہے اوردوسری میرے پبلیشر کی خواہش پرانسانی حقوق پرمیری نئی کتاب کی تیاری۔مگر تحریروں کا یہ سلسلہ تو ایک مدت سے چل ہی رہا ہے اور کم از کم ایک کالم تو ہفتے بھر کی مصروفیت کے با وجود لکھ ہی لیا جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ ہر دوسرے دن کالموں کی ریل پیل ہوا کرتی تھی اور کراچی اور پنجاب کے تقریباََ تمام ہی اخبارات سوائے اکا دُکا کے میرے کالم چھاپنا اپنے لئے قابلِ افتخار سمجھتے تھے۔مگر آج شائد لکھنے والے بہت زیادہ ہوگئے ہیںجس کی وجہ سے اکثر اخبار کالم لگانے سے کترانے لگے ہیں۔

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں،جس کو لکھنے میں میں گوں مگوں کی کیفیت میں تھا۔میں اردو اسپیکنگ ہونے کے باوجود میراایم کیو ایم جیسی سیاسی جماعت سے کبھی بھی تعلق نہیں رہا اور نہ ہی اس کی سیاسی پالیسیوں سے کبھی اتفاق رہا ہے ۔مگر یہ میرے شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، میرے صوبے کی دوسری بڑی سیاسی قوت اور پاکستان میں چوتھے نمبر ی بڑی سیاسی جماعت تو تسلیم شدہ ہے۔1992،میں وجہ کچھ بھی ہواس کے خلاف نصیر اللہ بابر نے سفاکانہ آپریشن کیا ۔جس کا نتیجہ زیرو بٹازیرو کے سوائے کچھ بھی نہ نکلا ہاں ایم کیو ایم کے کلاشن کوف برداروں کی ایک بڑی تعداد کو ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔جس کے بعد ایجنسیوں نے ایک نئی نام نہاد مہاجرتنظیم یم کیو ایم حقیقی کے نام سے اپنے لوگوں کی مدد سے اردو بولنے والے تمام علاقوں میںمسلط کر کے بڑا کار نامہ انجام سر انجام دیا۔ ان لوگوں نے اردو بولنے والے علاقوں میں ظلم و تعدی کا جو بازار گرم کیا وہ بھی ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔

بد قسمتی سے سندھ کے اردو بولنے والوں کی آبادی کوسندھ اور سندھ سے باہر سے آکر آباد ہونے والے لوگوںسے ہمیشہ لڑوایا گیا۔اس میں فوجی آمروں کا سب سے بڑا ہاتھ رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ یہ لوگ مذہب کے ساتھ ساتھ جمہوریت سے بھی ہمیشہ عشق کی حد تک محبت رکھتے رہے تھے۔اردو بولنے والوں کا پہلا اور بڑا دشمن جمہوریت کا قاتل ڈکٹیٹر ایوب خان تھا ۔جس کا اردو بولنے والوں سے تعصب دیدنی تھا۔اسی تعصب کے نتیجے میں نواب زادہ لیاقت علی خان کے قتل کئے جانے کے بعدمارشل لاءکی چھتری تلے کراچی کے حسن کو اجاڑنے اور قائد اعظم کے بنائے ہوےءداراحکومت کو ختم کر کے یہاں سے بہانے بنا کر پنجاب کے علاقے اسلام آباد میںمنتقل کر نے کامہاجر دشمنی سیاہ کارنامہ انجام دیا گیا۔پھر اردو اسپیکنگ بیوروکریٹ کی چھانٹی شروع کی گئی اسکے بعد کراچی کے لوگوں کو قائد اعظم کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح جس کو اس خود ساختہ حکمران نے غدارِ وطن قرار یددیا تھا،کی حمایت کرنے پرایک جانب یہ دھمکی دی گئی کہ ہندوستان سے تو یہ لوگ یہاں آئے تھے مگر اب ان کے لئے (بحرے عرب کا ) سمندر ہے، اور اپنے بیٹے گوہر ایوب کے ذریعے کراچی کو پہلی مرتبہ دہشت گردی کا شکار کر کے آگ اور خون میں نہلا دیا تھا۔اسی کے کرتوتوں کی وجہ سے اگلے فوجی ڈکٹیٹر کے دور میں ایک پاکستان دشمن کے سپوت کو ساتھ ملاکر اردو بولنے والوںکی محنت کے ثمر کو پاش پاش کر دیا گیا۔

نئے پاکستان اور ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگانے والے سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر نے بھی اگلے وقتوں میں اردو بولنے والی بیورو کریسی کو کھڈے لائن لگانے میں اپنے پشرووں سے زیادہ کارنامے انجام دیئے،اور اردو زبان جو پاکستان کی نام نہاد قومی زبان کا درجہ فی زمانہ رکھتی ہے کو دیس نکالا دینے کی ابتداءبھی غدارِ وطن شاہ نواز بھٹو کے بیٹے ذولفقار علی بھٹو کے دور میں ہی کی گئی۔پھر ان پر کوٹہ سسٹم بھی اوپن میرٹ کے قتل کے ضمن میں موصوف نے 1972، میں دس سالوں کے لئے نافذ کیا اور اردو بولنے والوں کے رزق و روزگار کو چھین لنے کے تمام انتظامات مکمل کر کے ۔ اپنے کئے کی سزابھگت کر دنیا سے رحصت ہوئے۔مگر کوٹہ سسٹم ی تلورکو آنیوالے ڈکٹیٹر نے بھی برقرار رکھی ۔ ان کے بعد ایک اور فوجی کٹیٹر جنرل ضیاءالحق جو نوے دن کے وعدے پر آئے تھے نے اردو بولے والوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے کے عزم سے مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد ڈلواکر اردو بولے والوں کی پیٹھ میں چھراگھونپ کر اپنے اقتدار کو پختہ کرنے کا کھیل شروع کیاجس کے ذریعے کلاشن کوف کلچر نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں ۔اردو بولنے والوں کے ہاتھوں سے قلم چھین کر تعلیم و محنت کی عظمت ان کے اندر سے رفو چکر کر کے ان کے کلچر کو دفن کرا دیا۔ای اور ڈکٹیٹر نے انہیں جی بھر کر سپورٹ کر کے جرائم کاتھا گہرائیوں میں ڈبو دیا۔اب سیاست کے نام پر بھتہ پرچی،اسنیچنگ،قتل و غارت گری ،جرائم کی کونسی قسم ہے جس کی ان کے اندر باقاعدگی سے آبیاری نہ کی گئی ہو۔گذشتہ 25، سالوں سے اس جہنم کے الاﺅ میں مسلسل جل رہے ہیں۔آج کراچی حیدر آباد سکھر کے اردو بولے والے علاقوں میں تعلیم نام کی شے ناپید بنا دی گئی ہے۔ان کے علاقوںکے کالجوں میں داخلے تو بھر پور ہوتے ہیں مگر کلاسوں میں طالبعلم کو ہمارے اپنے کلاشن کوف بردار ایم کیو ایم کی تربیتی نشستوں کے علاوہ پھٹکنے نہیں دیتے ہیں۔اب تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اردو بولنے والوں کے ”گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ اردو بولنے والوں کا نوحہ کس کے سامنے بیان کریںکہ ہمارا خود کا دامن تار تار ہے۔

ہم اپنے سیاست کے کھلاڑیوں سے دست بستہ اپیل کرتے ہیں کہ سیاست کے میدان سے ہر گز پیچھے نہ ہٹیں مگر ہمارے ہی علاقوں میں ہمارے ہی قاتلوں اور لٹیروں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں اس میں چاہے کتنا ہی بڑا نام کیوں نہ ہو۔کسی کو تو ہمت سے پہلا قدم اُٹھانا ہی ہوگا۔ہمارے بزرگوں سے تو لوگوں نے سیاست سیکھی اور ہم ہی بھول گئے!!!ہمیں صاف سُتھری سیاست سے کوئی بھی نہیں روک سکتا ہے۔ہر میدان میں بہت تباہی ہوچکی، خدا کے لئے ہماری نسلوں کی مزید بر باد مت ہونے دو۔یہ نام و نمود پیسہ بلڈنگز اقتدار سب یہیں رہ جائے گا۔تاریخ ہمارے اچھے یا بر ے کارناموں کو کبھی بھی نہ چھپا سکے گی۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

پروفیسر: ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com