دارالحکومت کا انتظام چلانے اور شہری سہولتوں کی فراہمی کے لئے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی سی ڈی اے جون 1960 ءمیں وجود میں آئی تھی۔ یہ ادارہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ ملک کے دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل محمد ایوب خان نے کیا تھا۔ جنرل ایوب خان نے اپنے ایک باوردی رفیق کار لیفٹیننٹ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو سی ڈی اے کا پہلا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان دونوں نے ملک کے نئے دارالحکومت میں اپنے گھر بنائے تھے۔ سی ڈی اے کو بنے ہوئے پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ایک وہ دور تھا جب کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کرتا دھرتا حضرات شہریوں کو اسلام آباد میں گھر بنانے اور اسے آباد کرنے کے لئے ترغیبات دیتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگ اسلام آباد کو آباد کریں۔ راولپنڈی اور ارد گرد کے علاقوں کے رہنے والے اسلام آباد میں آباد ہونے سے کتراتے تھے کہ جنگل میں گھرے اس شہر میں کون رہےگا۔ رفتہ رفتہ اسلام آباد ایسا آباد ہوا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور ہر کوئی یہاں آباد ہونے کا خواب دیکھنے لگا۔ اب تو حالت یہ ہے کہ اسلام آباد میں پلاٹ لینا اور مکان تعمیر کرنا ایک سنہرا خواب بنتا جا رہا ہے۔ آبپارہ ‘ سپر مارکیٹ اور چند سیکٹروں پر مشتمل یہ شہر اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ اس کی شناخت بھی دشوار ہو گئی ہے۔ اسلام آباد کا ماسٹر پلان جس کے تحت یہ شہر آباد ہونا تھا اس کا حلیہ بگڑ چکا ہے۔ جنرل یحییٰ خان سے لے کر موجودہ میئر کے انتخاب سے پہلے تک سی ڈی اے کی سربراہی ہمیشہ بیوروکریٹس کے پاس رہی ہے۔نوے کی دہائی سے پہلے سی ڈی اے کے چیئرمین کے پاس پلاٹ الاٹ کرنے کے اختیارات ہوتے تھے۔ اسی کی دہائی میں اس ادارے کے سربراہ علی نواز گردیزی تھے۔ اس دور میں کہا جاتا تھا کہ جو بھی گردیزی صاحب کے دفتر میں جاتا تھا وہ پلاٹ لے کر ہی باہر نکلتا تھا۔ یہ دور مارشل لاءکا دور تھا۔ باوردی حضرات نے اس دور میں اسلام آباد کے پوش سیکٹروں میں پلاٹ لئے۔ سیاستدانوں اور دوسرے شعبوں کے لوگوں کو سیاسی رشوت کے طور پر بھی پلاٹ الاٹ کئے جاتے رہے۔ کئی بااثر صحافیوں نے اس دور میں فائدہ اٹھایا اور قیمتی پلاٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ علی نواز گردیزی کے بعد بریگیڈئر (ر) جان نادر خان آئے ان کے پاس زمین الاٹ کرنے کا اختیار تھا۔ جب 1988 ءمیں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو انہوں نے اپنے صوابدیدی کوٹے سے لوگوں کو پلاٹ دیئے۔ بعد میں صوابدیدی کوٹہ ختم کر دیا گیا۔ سی ڈی اے ایک ایسا ادارہ ہے جس کے سربراہ عموماً سول سرونٹس رہے ہیں جو اپنے رفقاءکو نوازتے رہے ہیں لیکن وہ شہر کی ترقی اور شہری سہولتوں کی فراہمی کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کر سکے۔
موجودہ حکومت نے اسلام آباد کو منتخب لوکل باڈیز کا نظام دیا ہے۔ موجودہ میئر شیخ انصر عزیز خود وزیراعظم کے نامزد کردہ ہیں۔ انہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ براہ راست وزیراعظم کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ جب انہوں نے میئر کا منصب سنبھالا تو کچھ دنوں کے بعد راقم کی ان کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں انہوں نے دارالحکومت کے مسائل کے حل اور یہاں کے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے اپنے منصوبے کے خدو خال شیئر کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کی خواہش کے مطابق اسلام آباد کو دنیا کے ایک بہترین دارالحکومت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ سی ڈی اے کی وہ زمین واگزار کرانا چاہتے ہیں جس پر لوگوں نے سی ڈی اے کے عملہ کے ساتھ مل کر قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ نئے سیکٹر کھولنے کے لئے زمینوں کے حصول اور نئے سیکٹروں کی ترقی کے لئے ایک شفاف نظام بنانا چاہتے ہیں۔ وہ پلاٹوں کی الاٹمنٹ اور الاٹ شدہ پلاٹوں کو نمبر الاٹ کرنے کے پورے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنا چاہتے ہیں۔ پلاٹوں کو نمبر الاٹ کرنے کے لئے بھی وہ ایک شفاف نظام وضع کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ سی ڈی اے میں زمینوں کے حصول اور الاٹمنٹ کا کوئی کمپیوٹرائزڈ نظام نہیں ہے۔ اسلام آباد کے پارکوں کو دلکش بنانے‘ سڑکوں کی اپ گریڈیشن‘ دارالحکومت میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بھی میئر نے ایک منصوبہ بنا رکھا ہے۔ انہوں نے سی ڈی اے میں کئی سالوں سے ایک عہدہ پر براجمان افسروں کے تبادلے بھی کئے ہیں تاکہ بدعنوانی اور مخصوص مفادات کے لئے کام کرنے والوں کو ہٹایا جائے۔ کئی افسروں کو ان کے پسندیدہ عہدوں سے ہٹانے پر انہیں بڑے دبا¶ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہاں تک کہ بعض سینئر افسروں سے جن کے پاس پانچ پانچ سرکاری گاڑیاں تھیں گاڑیاں واپس لینے پر بھی میئر کے پاس سفارشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ جن بعض افسروں کو انہوں نے ہٹایا ہے انہوں نے انہیں ان عہدوں پر دوبارہ بھیجنے کے عوض کروڑوں روپے رشوت کی پیشکش بھی کی ہے۔ میئر شیخ انصر عزیز اپنی طرف سے تو پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن مخصوص مفادات رکھنے والے عناصر اور وہ بیوروکریٹس جو سی ڈی اے کو اپنے تابع رکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے مشکلات اور رکاوٹیں بھی پیدا کر رہے ہیں۔ ایک عرصہ تک تو میئر اور ان کے ڈپٹی میئروں کے لئے دفاتر بھی نہیں دے جا رہے تھے اسی طرح سٹاف کی فراہمی کے لئے بھی انہیں مشکلات درپیش تھیں اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے لیکن افسر شاہی اب بھی ان کے پا¶ں کے نیچے سے قالین کھینچ رہی ہے۔ منتخب میئر کو صحیح کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ دارالحکومت کے میئر کو اگر وزیراعظم کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کو بالکل کھڈے لائن لگا دیا جاتا۔ توقع ہے کہ وزیراعظم ملک کے دارالحکومت کے میئر کو مشکلات سے نکالتے رہیں گے تاکہ وہ اس شہر کو دارالحکومت کے شایان شان بنا سکیں۔