تحریر: عثمان حنیف
ملک میں زور و شور سے فوجی عدالتوں کے قیام پر بحث چل رہی ہے، طوعا و کرحاً ہر ایک فوجی عدالتوں کی حمایت کر رہا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ایک دوست نے قصہ سنایا کہ ایک شخص کو فوجی عدالت میں پھانسی سنائی گئی تو مجرم قرار دیے گئے شخص نے کہا کہ جس انسان کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے وہ تو زندہ ہے اور میں اسے عدالت میں پیش کر سکتا ہوں۔
پھر مقتول بھی پیش ہو گیا اور اس نے گواہی دی کہ میں زندہ ہوں، میرے قتل کے جرم میں جسے سزا دی جارہی ہے اسے بری کر دیا جائے، اس پر جج بھی مان گیا لیکن جج سزا واپس نہ لے سکا کیونکہ جج ایک میجر تھا جبکہ پھانسی کے حکم نامے پر جنرل کے دسخط ہوچکے تھے اور ایک میجر اپنے سینئر کے حکم نامے کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک ادارے کا اپنا کام ہے اسے ہی کرنا چاہیے لیکن بد قسمتی ہماری یہ ہے کہ فوج کے علاوہ کوئی ریاستی ادارہ حقیقت میں ادارہ ہے بن ہی سکا۔ بڑے زور و شور سے وکلا تحریک چلی اور نتیجے میں عدلیہ بحال ہوگئی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہ کہ عدلیہ بحال ہوئی عدل بحال نہ ہو
سکا۔
ملک میں کچھ بھی ہوجائے ہم اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اسٹیبلیشمنٹ کو اتنی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری حمیت ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے اس واقعہ س اندازہ لگائیں۔ ایک جگہ ایک فوجی افسر سے ملاقات ہوئی کچھ طلبہ بھی تھے وہاں ایک طالب علم نے کہا کہ آپ فوجیوں کی زندگی میں ایک پراوڈ یعنی وقار ہوتا ہے جس پر فوجی افسر نے ایک واقع سنایا تو میں سوچنے لگا کہ ہم لاتوں کے بوت بن چکے ہیں۔
فوجی آفیسر نے بتایا کہ انہیں ایک انٹرنیٹ کمپنی کے دفتر جانا پڑا وہاں ایک باباجی بیٹھے ہوئے تھے کہہ رہے تھے کہ تین دن سے آرہا ہوں ، میری ڈیوائس کا صرف کنیکٹر تبدیل کرنا ہے۔ لیکن کاونٹر پر بیٹھا شخص اتنا سا کام کر کے دینے کے بجائے بزرگ سے بدتمیزی سے پیش آرہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کسی کے پاس بھی چلے جاو آپ کا یہ کام نہیں ہوگا، اس فوجی افسر نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے بابا جی کا کا کروایا۔
یہ بات سن کر میں سوچنے لگا کہ بزرگ کا احترام کرنے کے لیے کس وقار کی ضرورت ہے اور اگر اتنا وقار ہمارے اندر نہیں بچا تو پھر جو کچھ آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ہم سی کے مستحق ہیں۔
تحریر: عثمان حنیف