یہ وہ کپتان نہیں جسے میں کرکٹ کے دنوں سے جانتا ہوں۔ اس نے 22 سال سیاسی جدوجہد کی مگر کوئی اسے سیاستدان ماننے کو تیار نہیں تھا۔ وہ وزیراعظم بن گیا تو کہا گیا اس نے اپنی سیاست کی معراج پائی مگر پھر بھی کوئی اسے سیاستدان ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
اس نے وزیراعظم بننے کے بعد جب بھی تقریر کی مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ کپتان آج بھی کنٹینر پر کھڑا ہو کر تقریر کر رہا ہے۔ بیرون ملک اس نے جب بھی تقریر کی یا کہیں گفتگو کا موقع ملا وطن عزیز کی پسماندگی کی وجہ کرپشن اور اداروں کی تباہی کو قرار دیتا تو اپوزیشن کہتی یہ کیسا وزیراعظم ہے جو دنیا کے سامنے اپنے ملک کی خرابیاں بیان کرتا ہے۔ ہم نے اس سے پہلے روایتی وزرائے اعظم دیکھے تھے۔ ایسے وزرائے اعظم جو ہمیشہ رٹے رٹائے جملے بولتے تھے۔ انھوں نے اپنی تقریریں لکھوانے کے لیے جید صحافیوں کی خدمات لے رکھی تھیں۔ خدمت پر مامور یہ صحافی اپنی تحریروں میں لفظوں کی اپنی جادوگری بکھیرتے کہ وزیراعظم انھیں انعام و اکرام دینے پر مجبور ہو جاتا۔ وزیراعظم یا صدر کسی اور کے جذبات پر مبنی تقریر کرتا اور اس کے رفقاء داد و تحسین کے ڈونگرے برسا کر اسے خوش کر دیتے۔ ایک کے بعد دوسرا حکمران آتا گیا مگر اس کی تقریر بھی معمولی ردو بدل کے ساتھ ہمیشہ وہی روایتی رہی۔ تاریخ اور تقریر دونوں خود کو دہراتے رہے۔کپتان وزیراعظم بنا تو اسے بھی یہی مشورہ دیا گیا کہ وہ کسی اور کی لکھی ہوئی تقریر پر اپنے لب ہلا دے مگر اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس نے کہا وہ صرف فی البدیہہ بولے گا۔ وہ اپنے جذبات براہ راست قوم تک پہنچائے گا۔ اس کی تقریریں زیادہ متاثر کن نہیں تھیں۔
کشیدہ کاری سے خالی سادہ الفاظ کسی حکمران کے منہ سے سننے کی یہ قوم عادی نہیں تھی۔یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا تھا۔ لوگ تنقید کرتے رہے اور وہ اپنی بات کہتا رہا۔ پھر اچانک مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک خود کش حملے نے ساری صورتحال تبدیل کر دی۔ کپتان کی ساری توجہ معیشت کی بہتری اور ملک میں سرمایہ کاری لانے پر تھی لیکن ایک پلوامہ نے سارا ماحول ہی تبدیل کر دیا۔ خود کش حملہ ہوتے ہی بھارت نے حسب معمول پاکستان کو اس کا ذمے دار قرار دے دیا۔ آیندہ ماہ عام انتخابات میں شکست سے خوفزدہ مودی سرکار نے پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ سرحد پار سے رات دن الزام اور دھمکیاں آنے لگیں۔ حالات سنگین ہوتے چلے گئے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو رخصت کرنے کے بعد کپتان نے بطور وزیراعظم قوم سے خطاب شروع کیا۔ چند منٹ کا یہ خطاب ختم ہوا تو احساس ہوا کہ وہ جسے سیاستدان تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا اچانک ’’اسٹیٹس مین‘‘ بن کر سامنے آگیا ہے۔ اس نے امن پر زور دیا۔ بھارت سے کہا ثبوت ہیں تو لائو میں خود کارروائی کروں گا۔ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ حملہ کرو گے تو ہم سوچیں گے نہیں، جواب دیں گے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارت کی رات کے اندھیرے میں کی گئی کارروائی کا دن کی روشنی میں موثر جواب دے دیا گیا۔کپتان نے ایک بار پھر مختصر مگر جامع تقریر کی، وہ پھر سیاست دان سے اسٹیٹس مین بن گیا۔ اس نے بھارت کو مکار دشمن کہا نہ کسی اور لقب سے پکارا مگر اپنا پیغام واضح پہنچا دیا۔ اس نے کہا جنگ شروع کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ مگر یہ کہاںجا کر ختم ہو گی کوئی نہیں جانتا۔ ابھی اس کی آخری تقریر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی گئی۔ اس نے پھر کہا ہم امن چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انڈیا ایک حد سے آگے نہ بڑھے کیونکہ ہماری قوم کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے جو شہادت کو غلامی پر ترجیح دیتا ہے۔الفاظ کا اتنا خوبصورت چنائو کہ پوری دنیا سے داد مل گئی۔ یہ درست ہے کہ بھارتی میڈیا نفرت پھیلانے اور جنگ کروانے میں پیش پیش ہے لیکن وہاں بھی کچھ ذی شعور میڈیا پرسنز یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ کپتان نے ان کے وزیراعظم کو چت کر دیا۔ وہاں کی اپوزیشن جماعتیں بھی کپتان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ انھیں بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ نریندر مودی صرف الیکشن جیتنے کے لیے دونوں ملکوں میں جنگ کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ پلوامہ سے شروع ہونے والا ڈرامہ محض الیکشن میں جیت کے لیے رچایا گیا۔ اس کا اعتراف بی جے پی کا ایک لیڈر بھی کر چکا ہے۔ پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگانے والی مودی سرکار خود دہشت گردی میں ملوث ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے اب دنیا کو وہ نظر آنے لگا ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت کا جھوٹ بھی آرام سے بک جاتا ہے اور ہمارا سچ خریدنے کے لیے بھی بہت کم لوگ تیار ہوتے ہیں۔
تھوڑا وقت لگے گا لیکن دنیا حقائق تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ کپتان کرکٹ کے میدان میں بہت اچھا کھیلا۔ اس نے پاکستان کو عالمی چیمپئن بنوایا۔ آج سیاست کے میدان کا بھی کپتان بن گیا۔ انڈیا میں جتنی تقسیم آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس تقسیم کا زیادہ کریڈٹ نریندر مودی کی لیڈر شپ کو جاتا ہے لیکن جلتی پر کچھ تیل کپتان کی تقریروں اور فیصلوں نے بھی ڈالا ہے۔ نریندرمودی نے جارحیت کا حکم دیتے ہوئے انڈیا کو شاید امریکا سمجھ لیا تھا۔ انڈیا کو معلوم نہیں تھا کہ اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی جیسے سپوت دفاع وطن کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ دو بھارتی طیارے گرانے کے بعد ہمارے ہیروز نے یہ باور کرادیا کہ ہمیں چیلنج کروگے تو پھر یہی حشر ہو گا۔ ہماری ساری کوششیں امن کے لیے ہیں۔ بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو رہا کر کے بھارت کے حوالے کرنے کا اقدام بھی امن کے لیے ہے۔ کپتان کی اسٹیٹس مین شپ نے اسے بھارت میں بھی ہیرو بنا دیا۔ بھارتی چینلز کے وار روم ذلت کا نشان بن چکے ہیں۔ کپتان نے پاکستانی میڈیا کے کردار پر اسے خراج تحسین پیش کیا۔ ماننا پڑے گا ہمارا میڈیا بہت متوازن رہا۔
امید ہے ہماری حکومت کو میڈیا کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہو گا۔ اب وقت ہے کہ اس کی مشکلات کا بھی احساس کیا جائے۔کپتان خوش قسمت ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے بدترین مخالف بھی تنقید نہ کرنے پر مجبور ہیں۔ آج بھارت میں انتشار اور ہماری ریاست میں وقار دکھائی دے رہا ہے۔ ہماری حکومت ہی نہیں ریاست بھی یہ جانتی ہے کہ دہشتگردی کی دنیا میں کوئی گنجائش نہیں۔نیشنل ایکشن پلان پر پہلے سے عمل ہو رہا ہے۔ تھوڑی بہت کمی رہ گئی ہے تو اس کو بھی دور کر لیا جائے گا۔ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ سیاسی قیادت تو ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنا چاہتی ہے لیکن فوج تیار نہیں۔ بھارت کے ساتھ کرائسز میں دنیا نے دیکھا کہ سیاسی اور فوجی قیادت نے ایک ہی بات کی۔ وہ بات یہ ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں۔ جنگوں سے بہت نقصان ہو چکا، اب امن کی ضرورت ہے۔ ایک کرائسز میں کپتان نے اسٹیٹس مین شپ دکھادی۔ اپنی اس صلاحیت کو اب مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے بھی استعمال کرنا پڑے گا۔ ملکی معیشت اور حالات کو ٹھیک کرنے کی ذمے داری پہلے ہی اس کے کندھوں پر ہے۔کپتان نے شاندار حکمت عملی سے بھارتی میزائل چلنے سے پہلے ٹھس کر دیے۔ بھارت میں مودی زیرو اور کپتان ہیرو بن گیا۔ وہ سیاستدان سے کب اسٹیٹس مین بن گیا پتہ ہی نہیں چلا۔