پاکستان کی خارجہ پالیسی ابتدا سے مغرب نواز ہے۔ بظاہر بھارت اور پاکستان کشمیر کے مسئلے پر مختلف موقف رکھتے ہیں مگر مغرب کی تائید میں دونوں کا موقف ایک ہے۔ مشرق وسطیٰ پر ڈیموکریٹس کی پالیسی کی پاکستان تائید کرتا رہا۔ شام کے معاملے پر ترکی اور سعودی عرب کا موقف یکساں رہا جب کہ حلب کی شکست پر ترکی کے حمایتی بھی اوباما پالیسیوں کے ہم خیال رہے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں رشین فیڈریشن کے موقف کی تائید کرتے رہے، جس پر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا چنانچہ وہ اپنے سخت موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔
گو مودی سرکار کی بھی وہی خارجہ پالیسی ہے جو پاکستان کی ہے، مگر چونکہ عالمی معاملات میں اس کی پالیسی میں ابہام ہے اس لیے اس کو ٹرمپ نے پرامن خارجہ حکمت عملی والا ملک قرار دیا۔ اس لیے نئے امریکی صدر تک پاکستان کے خارجہ مشیروں کی رسائی نہ ہو سکی۔ اب ٹرمپ کے بقول وہ روس اور چین کے ساتھ مل کر خارجہ امور طے کریں گے۔ حالانکہ حالیہ دنوں میں پاکستان نے خارجہ پالیسی پر نئی حکمت عملی مرتب کی۔ مگر اس ماہ جو راستہ دکھائی دیا وہ ایک قدم اور آگے تھا، جس پر پاکستان میں خاصا شور شرابا رہا۔ وہ گفتگو وزیراعظم نواز شریف سے منسوب رہی، وہ تھی 39 ممالک کی فوجی کمان کی، جس کو جنرل راحیل شریف سنبھالیں گے۔
بات کچھ یوں ہے کہ سعودی شہزادے محمد بن سلمان جب پاکستان اگست کے آخر میں آئے تو انھوں نے راحیل شریف سے فوجی کمان سنبھالنے کی خواہش ظاہر کی، خبروں میں یوں ظاہر کیا گیا کہ جنرل راحیل شریف نے میاں نواز شریف کے کہنے پر رضامندی ظاہر کی، مگر جنرل راحیل شریف کئی پہلو سے ہر مسئلے کو دیکھنے کے عادی ہیں۔
بظاہر معاملہ لوگ سمجھے کہ طے پاگیا مگر اس میں ابھی کچھ رکاوٹیں باقی ہیں، خود جنرل صاحب کا تجزیہ اور خصوصاً حلب کے معرکے کے بعد کے حالات امریکا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات، ٹرمپ اور پوتن کے پیغامات ٹرمپ کا یہ جملہ کہ نیٹو ایک ’’متروک‘‘ لفظ ہے، اس سے معاہدہ نیٹو کا مستقبل سامنے آ جاتا ہے، ایسی صورت میں جب کہ صدر ٹرمپ میں ایک بہتر دوستی کے امکانات موجود ہیں تو جنرل راحیل کیونکر ایسا قدم اٹھائیں گے کہ جس میں اختلافات اور بڑھ جائیں گے اور ایک طویل عرصے بعد ماسکو میں فلسطین کی جنگ آزادی کی آٹھ تنظیموں کی ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے.
اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ رشین فیڈریشن سابق سوویت یونین کی پالیسی پر گامزن ہونے کو ہے، گویا ایسی صورت میں کسی دوسری مشرق وسطیٰ کی تنظیم کی امید کم نظر آتی ہے بلکہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ یمن اور کردستان کے مسائل بھی فلسطین کا تنازعہ ایک ساتھ اٹھیں، ایسی صورت میں جنرل راحیل شریف کیونکر اپنے آپ کو اس الجھی کہانی میں ڈالیں جب کہ اس کمان میں پاکستان کا آنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔
رہ گیا حرم شریف کی نگہبانی، یہ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ابابیل سے خداوند کریم نے ہاتھی کے پرخچے اڑا دیے۔ رہ گیا حکومتوں کی حفاظت یہ ایک اور مسئلہ ہے جس کا تعلق دنیا سے ہے۔ گو پاکستان میں سیاسی شور و ہلچل مچی، مگر صورتحال اب تک سامنے نہ آئی۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں اور بعض مذہبی لیڈروں نے بھی اس مسئلے کو اپنی اپنی آرا سے اتفاق و اختلاف کیا ہے۔ رائے عامہ کے بعض حلقوں کے بقول کمان کے سربراہ جنرل راحیل شریف شام اور ایران کی شمولیت بھی اس میں چاہتے تھے مگر مصدقہ اور حتمی خبر اب تک سامنے نہ آ سکی۔
یہاں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان خارجہ امور پر کوئی حتمی رائے اور زاویے نہیں رکھتا اور بدلتے ہوئے حالات میں قانون سازی بھی موجود نہیں، کیونکہ اسکولوں کی بھی چھٹیاں ابھی تک موسم کے اعتبار کے بجائے انگریزوں کی حکومت کے اعتبار سے ہوتی ہیں۔ انیسویں صدی کے موسم میں ہی پاکستان گرفتار ہے اور سیاسی طور پر اپنی سیاسی عملداری نافذ کرنے کے بجائے دوسروں کی سیاسی عملداری کی پیروی میں گرفتار ہے، اسی لیے ہماری کوئی خارجہ حکمت عملی نہیں۔ سیاسی بصیرت کے بغیر ملک چلانا اب آسان نہ ہو گا، جہاں کوئی چھوٹا موٹا معاشی مسئلہ درپیش آیا، تیل کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔ تیل کی سستی سیاست نے ترکی کو بربادی کی راہ پر ڈال دیا۔
اب ترکی کے حالات ابتری کی جانب جا رہے ہیں۔ اس کی اصل وجہ کہ وہ شرق اوسط کی نشیب و فراز کی رسہ کشی میں ٹانگ اڑاتا رہا اور شام کی حکومت گرانے میں مخالفوں کے ساتھ رہا جب کہ امریکا شرق اوسط کی جنگ میں شکست کھا کر الگ ہوگیا اور ٹرمپ نے اس سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ تو آخر یہ 39 ملکی سیاست کیونکر کوئی فیصلہ کن وار کر سکے گی، جب کہ ساز و سامان کے معاملے میں سب کے سب امریکی اسپیئر پارٹس پر زندہ ہیں۔ کوئی ملک جنگی ساز و سامان میں خود کفیل نہیں۔
عرب حکومتوں میں فوجی آمروں کو ہٹانے کے لیے کرائے کے قاتل عرب سرزمین پر بھیجے گئے، جیساکہ کرنل قذافی کے ساتھ ہلیری کلنٹن نے کیا اور آخرکار لیبیا نہ دائیں جانب رہا اور نہ بائیں جانب کی سیاست میں۔ صدیوں سے بسے بسائے لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر ترک وطن کرنے کے لیے سوار ہوتے اور راستوں میں ڈوب جاتے یا نصف کامیاب ہوتے، ان کو جنگلوں میں جرمن چانسلر نے جگہ دی جب کہ کسی مسلمان ملک نے پناہ نہ دی۔ آخرکار اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کا اعتماد ان 39 ممالک سے اٹھ گیا اور شامی، عراقی اور لیبیا کے لوگوں نے یہ محسوس کرلیا کہ یہ غلبہ کی سیاست ہے اور اسلام سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے۔
داعش نے بھی ایسی سفاکی کا مظاہرہ کیا جس نے اسلام کو سلامتی کے بجائے ظلم و بربریت کا نمونہ بنا دیا۔ اس کو بھی اسرائیل کی حمایت جاری تھی۔ درحقیقت داعش کو امریکا نے اسپانسر کیا۔ کئی بار ٹرمپ نے ڈیموکریٹس پر یہ الزام لگایا۔
یہ 39 رکنی اتحاد نہ تو اسرائیل کے خلاف کوئی اعلان جنگ ہے اور نہ ہی داعش کے خلاف، تو عام آدمی یہ سوال کرسکتا ہے کہ یہ اسلامی اتحاد کس ملک کے خلاف ہے اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ اتحاد امت مسلمہ میں یگانگت اتحاد اور ملت کے دکھ درد بانٹنے کے لیے معرض وجود میں آتا اور مجموعی طور پر جو لوگ شرق اوسط کی جنگ میں بے گھر ہوئے اور دربدر ہوئے ان کی خیر و عافیت، آبادکاری، روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے۔ بجائے اس کے کہ دوسروں پر اپنی آرا یا زبردستی اپنے عقائد مسلط کیے جائیں۔ ایسا کرنے سے امت میں فساد کا اندیشہ اور مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ دست درازی کا اندیشہ ہے۔
مسلم امہ کو ابھی چند اہم مسائل کا حل کرنا ضروری ہے، مملکت کردستان اور یمن ابھی تازہ حل پذیر معاملے ہیں، جن کو علاقے کی عوامی رائے عامہ کی مرضی سے حل ہونا چاہیے مگر پاکستان میں کسی جامع خارجہ پالیسی کا اب تک کوئی رخ متعین نہ ہوسکا، بلکہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بعض عرب ممالک کی خارجہ حکمت عملی کے دباؤ کا شکار ہے جب کہ بھارت عرب ممالک سے تجارتی اور دیگر مراعات بغیر کسی مراعات دیے حاصل کر رہا ہے۔