ڈاکٹر عبدالقدیر خان
سوائے افریقی اور جنوبی امریکہ کے چند ملکوں کے کسی اور ملک میں شاید اتنی گندی سیاست چلتی ہوگی جتنی کہ ہمارے ملک میں۔ مجھے یاد ہے کہ کسی نے قائد اعظم سے کہا تھا کہ سیاست بہت ہی گندہ کھیل ہے تو آپ نے بَرجستہ جواب دیا تھا کہ ہاں سیاست گندے لوگوں کے لئے گندہ کھیل ہے۔آج جب پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اخلاقی قدروں کو نجاست کا غسل دیدیا ہے۔ گندی زبان جلسوں میں، پریس کانفرنسوں میں، ٹی وی انٹرویوز میں ایک عام وطیرہ بن گیا ہے۔ وہ مسلمان قوم جس کو خوش اخلاقی اور اچھے کردار کی تعلیم بچپن سے ہی کلام مجید کے ذریعے دی جاتی ہے اس کا کردار و اخلاق اتنا پست ہوسکتا ہے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ انگریزوں اور مغربی ممالک میں تو کہاوت ہے کہ محبت اور لڑائی میں ہر چیز جائز ہے مگر انھوں نے اس سیاست کو بھی شامل کرلیا ہے۔ ہم پچھلے 50 سال سے یہاں سیاست دیکھ رہے ہیں اور اس میں وقفے وقفے سے گندگی سرایت کرتی جارہی ہے۔ مرحوم خان عبدالقیوم خان اور بھٹو صاحب مرحوم کے دور میں سیاست خاصی گرم تھی مگر کبھی کسی نے گندی زبان استعمال نہیں کی۔ ہمیں بدقسمتی سے یہ دن بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ جس میں مخالف پارٹی کے لیڈر منتخب حکمرانوں کو اوئے اوئے کہہ کہہ کر مخاطب کررہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر یقینا جہالت کے دور میں داخل ہوجائینگے۔
پچھلے چند دنوں سے عمران خان ذرائع ابلاغ کی رونق بنے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین سے بمشکل نجات حاصل ہوئی تھی کہ انھوں نے اس کی جگہ لے لی۔ یہ قانونی طریقہ کار کو نہیں مانتے اور نہ ہی جانتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں جہاں ہم سے چھ گنا زیادہ آبادی ہے وہاں نہ تو کبھی ڈکٹیٹر شپ آئی اور نہ ہی کبھی کسی پارٹی نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا اور نہ ججوں یا چیف الیکشن کمیشنر پر بہتان ترازی کی گئی۔ 2008 کے الیکشن میںجب پی پی پی کامیاب ہوئی تو ن۔لیگ نے نتائج فراخدلی سے قبول کرلئےتھے اور 2013 کے الیکشن کے بعد پی پی پی نے بھی نتائج قبول کرلئے تھے لیکن عمران خان نے پہلے ہی دن سے شیر آیا شیریا آیا کی رٹ لگادی اور تہذیب کا دامن چھوڑ کر نہایت نا زیبا زبان استعمال کرنا شروع کردی، یہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کے خلاف بھی اسی طرح کی زبان استعمال کرنا شروع کردی۔ ایسا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر یہ زبان استعمال کرو تو شاید دوسرے سیاست داں مرعوب ہوجائینگے اور بھاگ جائینگے۔ آجتک کوئی منتخب حکومت دوسروں کی گالی گلوچ سے میدان چھوڑ کر نہیں بھاگی ہے۔ عمران خان نے پاکستان اور انگلستان میں اچھے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس تعلیم و تربیت کا ان پر اثر نہیں ہوا حالانکہ جب کوئی طالب علم اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ وہاں سے منجھا ہوا، سلجھا ہوا، اچھے اخلاق و کردار کا نمونہ ہوتا ہے۔ یہاں بدقسمتی سے کوئی ایسی جھلک نطر نہیں آرہی۔ عمران خان نے پچھلے سال چھ ماہ کا دھرنا ڈی چوک پر دیا تھا اس میں ڈاکٹر طاہر القادری نے مدد کی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ حکومت سے کچھ مراعات لے لینگے مگر وہ دھرنا بیکار گیا۔ اس میں سوائے تفریح کے کچھ سامنے نہ آیا۔ ان کو احساس نہیں ہے کہ ان کے اس عمل سے اسلام آباد کے شہریوں کو کس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ تاجروں کی بزنس ختم ہوگئی، یومیہ کام کرنے والے بیروزگار ہوگئے اور اسکول اور کالج کے بچوں کی تعلیم کا بے حد حرج ہوا۔ خدا جانے کس نے ان کو مشورہ دیا ہے کہ غیرقانونی اور عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے ان کو حکومت مل جائے گی۔ مگر ان نقصانات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوا سوائے اس کے کہ انھوں نے اپنی مقبولیت میں کمی کرلی، لاتعداد لوگوں سے میرا واسطہ رہتا ہے اور یہ تمام لوگ ان کی پالیسی کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔
موجودہ دھرنے کی ابتدا جس طرح کی گئی وہ لاقانونیت کی مثال تھی۔ اس سے نہ ہی نواز شریف جائینگے اور نہ ہی حکومت بدلے گی۔ بجائے اس وقت کی سرگرمیوں میں وقت ضائع کرنے کے بہتر یہ ہوتا کہ پارلیمنٹ میں حکومت کی کمزوریاں بتلاتے، عام جلسوں میں تہذیب کے اندر رہ کر حکومت پر اعتراض کرتے اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملاتے۔ اس وقت جو لوگ جمع ہوجاتے ہیں وہ ہلّڑبازی، کھانے اور توڑ پھوڑ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کوئی سنجیدہ شخص ایسی سرگرمیوں میں حصّہ نہیں لیتا۔ اس کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا۔ یہ بات ان کو سمجھ لینا چاہئے۔ بہتر ہوگا کہ ابھی سمجھیں اور تاخیر نہ کریں ورنہ بس نکل جائے گی۔
اب موجودہ دھرنے کی وجوہات و مقاصد کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ عمران خان نے 30 اکتوبر کو سنٹرل سیکرٹریٹ سے ایک پیغام اپنے پیروکاروں کو دیا تھا وہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ بیانات و وعدوں اور اصل مقاصد کے بارے میں جان سکیں۔ یہ پیغام یوں تھا:
پاکستان تحریک اِنصاف
سنٹرل سیکریٹریٹ
خفیہ پیغام نمبر 122E/162
30 اکتوبر 2016 ء
جیسا کہ آپ سب کو علم ہے پاکستان تحریک انصاف نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ ملک سے رشوت ستانی کو ختم کیا جائے اس مقصد کے لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے اسلام آباد کو 2 نومبر کو مکمل بند کردیں۔ لیکن شریف مملکت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ سرکاری قوت مظاہرین کے خلاف استعمال کرے جیسا کہ پچھلے چند دنوں میں دیکھا گیا ہے۔ اسلئے گرفتاری سے بچنے اور حکومت کی قوت سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات جاری کی جارہی ہیں:۔
کارکنوں کی حفاظت اور تحریک کو ووٹ دینے والوں کی حفاظت کے لئے:
(1) تمام ممبران، کارکنوں کو ہدایت کی جاتی ہے وہ گیس ماسک، لاٹھیاں اور شیلڈز وغیرہ لائیں تاکہ حکومتی تشدد سے حفاظت کرسکیں۔
(2) کم از کم 100 روپیہ ہر ممبر پی ٹی آئی فلاحی اکائونٹ میں اپنے علاقےمیں جمع کرادیں۔
(3) تمام کارکنوں کو ہدایت کی جاتی ہے وہ اپنے ساتھ خواتین اور مردوں کو ساتھ لائیں کیونکہ پولیس کے لئے خواتین پر حملہ کرنا مشکل ہوگا۔
(4) تمام کارکن بڑے بڑے جتھوں اور ریلی کی شکل میں سفر کریں، اپنے علاقہ میں جمع ہونے اور مجمع لگانے سے گریز کریں۔
(5) کام کرنے والے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ دوسرے شہروں میں چھپ جائیںاور ٹیلیفون پر رابطہ کریں بلکہ سوشل ذرائع ابلاغ سے رابطہ میں رہیں۔
(6) وہ کارکن جن کے پاس لائسنس والا اسلحہ ہے ان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اسلحہ لے کر آئیں مگر ان کو دکھانا وغیرہ سخت ممنوع ہے۔
(7) مقامی پولیس اسٹیشنز پر نگرانی رکھیں اور اگر کسی کارکن کو گرفتار کرکے وہاں رکھا جائے تو تم کو چاہئے کہ فوراً تھانے کا گھیرائو کرکے اس کارکن کو رہا کرائو۔
(8) اگر لوکل امن و امان قائم کرنے والے کارکن پارٹی کے کارکنوں کے خلاف کوئی اقدام اُٹھائیں اور تم کو دارالحکومت اسلام آباد میں آنے سے روکیں تو آپ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ اس علاقے کی سڑکیں اور علاقے کی ناکہ بندی کردیں اور اگلے حکم و ہدایت کا انتظار کریں۔
تمام کارکنوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔ خاص مجمع، جلسہ 2تاریخ (نومبر) کو شہر کو مکمل بند کرنے کے لئے ہوگا۔
آپ خود ہی ان ہدایات کو پڑھ کر فیصلہ کریں کہ کیا پُرامن مظاہرہ کرنے کے لئے یا بزور قوّت اسلام آباد پر قبضہ کرنے کیلئے ہے۔ میرے ساتھیوں اور میں نے ملک کو اس لئے ایٹمی قوّت نہیں بنایا تھا کہ باہر کے بجائے اندر سے اس کو تباہ کردیا جائے۔