تحریر: محمد توقیر خان
اداس چہرہ، بِکھرے بال، گندے میلے کچیلے کپڑے، پٹھے پرانے جوتے، حالات کا مارا تنگدست ‘ امراء یا طاقتور کا ستایا ہوا غریب یا عام آدمی جو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم یا زیادتی کی داستان سنانے یا سفارش کے لئے اپنے علاقہ کے بااثر آدمی کے گھر کے باہر کھڑا ہو جاتا ہے کہ وہ با اثر آدمی انصاف کے حصول کیلئے اس کے ساتھ تھانے جائے یا اس کی سفارش علاقہ کے SHO ، تھانید اریا محرر کو کر دے یا اسے کوئی رقعہ یاچِٹ دے دے تاکہ جب وہ اپنے ساتھ ہونے والی نااِنصافی کی رپورٹ کروانے کیلئے تھانے جائے تو اسکے ساتھ کوئی بدتمیزی بداخلاقی نہ کی جائے اور کوئی اُس کی بات سن لے۔ کم از کم اُس کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جائے یہ ہے تھانے کا وہ خوف جو پاکستان کے ہر غریب، عام یا شریف شہری کے دل میں اس خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے کہ وہ اپنے جائز کام کیلئے تھانے جانے سے گھبراتا ہے اور وہ انصاف کے حصول کی پہلی سیڑھی یعنی تھانہ میں اکیلے جانے سے گھبراتا ہے اور سب سے پہلے وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں مصروف ہو جاتا ہے جو تھانے جانے کے لئے اسکی سفارش ہو۔
اللہ اللہ کر کے وہ کسی طرح ایسے شخص کو ڈھونڈتا ہے اسکے بعد اُسے تھانے کے اندر جانے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر وہ کسی ایسے شخص کو تلاش نہ کر پائے تو جب وہ تھانے کی طرف قدم برھاتا ہے تو اُسے ایک ایک قدم میلوں کا سفر محسوس ہوتا ہے وہ جوں جوں قدم آگے بڑھاتا ہے اُسکے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی ہوتی ہے اتنی تیز کہ جیسے دل ابھی باہر نکل آئے گا اور وہ سوچوں میں اس قدرگم ہوتا ہے کہ آس پاس کا کچھ پتا ہی نہیں ہوتااور سوچ صرف اِس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ میں تھانے جائوںگا تومیرے ساتھ کیسا سلوک ہو گا۔کیا وہاں کوئی میری بات سنے گاکیا کوئی میری داد رسی کرے گاکیا کوئی میرے ساتھ ہونے والے ظلم ،زیادتی یا نااِنصافی پر مجھے اِنصاف دِلائے گاوہ من ہی من میںخود سے یہ سوال کرتاہے ‘ دل ہی دل میں خود کو تسلی دیتا ہے اُسے عجیب عجیب خیالات اور وسوسے آ رہے ہوتے ہیں۔
ہر گزرتے لمحے اور تھانے کی طرف بڑھتے قدم کے ساتھ اُس پر یہ خوف حاوی ہو رہا ہوتا ہے اور جب بڑی مشکل سے تھانے کے گیٹ کے قریب پہنچتا ہے تب تک اُسکی ہمت جواب دے چکی ہوتی ہے اب خوف کی یہ حالت ہو رہی ہوتی ہے کہ تھانے کے اندر جانے کا حوصلہ یا جُرات اس میں باقی نہیں ہوتی اور وہ تھانے کے گیٹ کے سامنے ہی سڑک پار کھڑا ہو جاتا ہے اس انتظار میں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ آئے اور میرا وسیلہ بنے’یہ وہ کڑوا سچ اور تلخ حقیقت ہے جس سے اسوقت پاکستان کے شہری دوچار ہیںکیا ایسے حالات میں بنیادی انسانی حقوق کا ملنا ممکن ہے آپ سب کا جواب بھی میری طرح نہ میں ہی ہو گااور ان سب وجوہات کی حقیقت یہی ہے کہ اجتک ہم سب نے انفرادی طور پریا ہمارے سرکاری اور پرائیوئٹ اداروںاور سول سوسائٹی نے اجتمائی طور پرحقیقی معنوں میں ایسے اِقدامات ہی نہیں کئے کہ اِن حا لات کو بدلا جاسکے”۔
اب نہیں تو کب ہم نہیں تو کون ”میرے عنوان سے آپ کو لگے کہ شائد میں کوئی سیاسی آدمی ہوں کسی پارٹی کا کوئی ورکر یا لیڈر ہوں یا کسی پارٹی کا الیکشن کے لیے امیدوار ہوں جبکہ ان میں سے ایسا کچھ بھی نہیں ہے میں پاکستانی کی دھرتی کا ایک عام شہری ہوں چونکہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اَن الفاظ کا استعمال پاکستان کی سیاست میں الیکشن کے دنوں میں امیدواروں کی طرف سے بینرز اور پوسٹرز پر نظر آتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ الفاظ اپنے اندر بہت وزن رکھتے ہیں ان میں بہت جان ہے اور موجود ہ پاکستانی حالات میں ان الفاظ کو صرف الفاظ تک محدود رکھنا ملک سے غداری کے مترادف ہے’میرے بہت ہی محترم قابل عزت شخصیت جن کا نام لیے بغیر ان کے کار خیر کو آگے پہنچانے کی کوسش کرونگا ‘فرماتے ہیں کہ موجودہ ملکی حالات میں پاکستان کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے جیسا کہ کرکٹ میچ میں کسی ٹیم کی میچ جیتنے کے لیے بیٹنگ جاری ہو جبکہ اس بیٹنگ لائن کی آخری وکٹ ہو اور میچ جیتنے کے لیے ابھی کافی سکور کی ضرورت ہو شاید پاکستان ایسی صورتحال سے دوچار ہے۔
وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ مُلک بہت قُربانیوںکے بعد حاصل کیاہے مگر اب حالات اِیسے ہیں کہ یہ وہ پاکستان نظر نہیں آرہا جس کا خواب شاعرِ مشرق جناب علامہ اِقبال نے دیکھا تھا اور اُس خواب کی تعبیر کیلئے قائدِاعظمنے دن رات محنت کی۔باتیں بہت ہو چکیں کتابیں بہت لکھی جا چکیں اب عملًا کچھ کرنا ہے اور ہر پاکستا نی کوحقیقی معنوں میں پاکستان کو دنیا میںکے بہترین ممالک کی فہرست میںشامل کرنے کیے لیے اورعام وخاص کو مساوی حقوق دلانے کے لیے اقدامات کرنے ہوںگے اب ہر پاکستانی کو اب یہ تہیہ کرنا ہو گاکہ” اب نہیں تو کب ہم نہیں تو کون ” ہر دمی کو اپنی اپنی سطح پر اس کار خیر میں حصہ ڈالنا ہو گا اور اس میچ کو جیتنا ہو گا’شاید لاہور پولیس کی موجودہ کمانڈ کو اِس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ” اب نہیں تو کب ہم نہیں تو کون ” اور اگر کوئی شخص یا ادارہ کوئی ایساقدم اُٹھائے تو ہم سب کو اُس کی حوصلہ افزائی بھی کرنی ہو گی آج ہم لاہور پولیس کی بات کرتے ہیں سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد لاہور پولیس میں اعلی سطح پر تبدیلیاں ہوئیں اور نئی کمان کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
لاہور پولیس کے موجودہ سی سی پی او کیپٹین (ر) محمد امین وینس اورانکی ٹیم نے پچھلے سال 2015ء میں پیشہ ورانہ اندازمیںکام کرتے ہوئے ایسے اِقدامات کئے جن پر لاہور پولیس تعریف کے لائق ہے گزشتہ سال میں لاہور پولیس نے بہت سے چیلنجز کا سامنا پروفشنل اندازمیں کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے نبھایا ان چیلنجز میں پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کے لیے زمبابوے کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان بلدیاتی الیکشن اور محرم الحرام قابل ذکر ہیں اور ان سب کے لئے بہترین سکیورٹی پلان نظرآیا اسکے علاوہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کوبھی مذاکراتی پالیسی کے ذریعے بہتربنایا جس پر لاہور پولیس شاباش کی حقدار ہے موجودہ سی سی پی او لاہور کیپیٹن (ر) محمد امین وینس ایک منفردشخصیت کے حامل ہیں انہوں نے تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لیے وہ اقدامات کیے کہ تاریخ اور عوام ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی یہ نہایت درددِ دل رکھنے والے انسان ہیں اور عام آدمی کے لیے کچھ کر گزرنے کا جزبہ ان کے اند بھرا ہو اہے انہوں نے تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے ایک نیا باب رقم کیا ہے۔
جسے اب دنیا ایڈمن افسران کے نام سے جانتی ہے پنجاب پلک سروس کمیشن سے منتخب شدہ اے ایس آئی رینک کے افسران کی سلیکشن کر کے تھانہ میں ایڈمن افسران تعینات کیا گیا او انکی ٹریننگ بھی خود کی بلکہ ہر ہفتے میں ایک دن ان کا ٹریننگ سیشن جاری رکھا جس میں ان کی تربیت کے لیے خود بھی موجود رہتے ہیں اسکے علاوہ اعلی پولیس افسران ملک کے نامور دانشوروں ،صحافیوں، ماہر نفسیات، کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو ان کی ٹریننگ سیشن کے دوران لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جس سے ان پڑھے لکھے نوجوان ایدمن افسران کو عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے میں کافی مدد ملتی ہے اورانہیں عام آدمی کی تھانہ تک رسائی اور اُن سے تھانہ میںاچھے اخلاق سے پیش آنے اور روائیتی پولیسنگ سے ہٹ کے عام آدمی کا کام بہتر انداز میں کرنے کی شھادتیں موصول ہو رہی ہیںاس سلسلہ میں کافی سنئیر تجزیہ نگاروں،کالم نویسوں اورصحافیوں نے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں سی سی پی او لاہور اور ایڈمن افسران کے کام کو سراہا ہے۔
جو کہ تھانہ کلچر کے حوالے سے ایک خوشگوار تبدیلی ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ لاہور میںاور بغیر کسی PC-1 کے ممکن ہے تو پورے پاکستان میں کیوں نہیںبات صرف مخلصی اورجذبے کی ہے اگراس میں قابلیت کو بھی شامل کر لیا جائے تو بے جا نہ ہو گااگر سی سی پی او لاہور کیپٹین (ر) محمد امین وینس اورانکی ٹیم اِسی پولیس سے یہ کام لے سکتے ہیںتوپورے پاکستان میں کیوںکر ممکن نہیں جبکہ دوسری طرف ڈی آئی جی آپریشن حیدر اشرف دور جدید میں لاہور پولیس کو ٹیکنالوجی کی مدد سے پولیسنگ اور پروفیشنل پولیسنگ کے فروغ کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں جو کہ ان کا اپنے کام سے مکمل طور پرمخلص ہونا ظاہر کرتا ہے ہمارے پاکستان میں روایتی پولیسنگ کا طریقہ کار ہی چلتا آرہا تھا جبکہ دنیا بھر میں پولیس ٹیکنالوجی کی مدد سے کریمینل کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے کامیابیاں سمیٹ رہی ہے ڈاکٹر حیدر اشرف نے بھی لاہور پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے کامیابیاں سمیٹنے کا آغازکر دیا ہے اُنہوںنے لاہور پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے ہیں۔
جس سے پولیس کی کارگردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اِن میں کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم ۔ایس ایم ایس براڈ کاسٹنگ سروس اور پولیس اہلکاروں کے لیے موبائل فون ایپلی کیشن جن میں کریمینل ڈیٹا ریکارڈ، کرایہ داران کی رجسٹریشن، ڈیٹا بیس اور دیگر ایپلی کیشنز ہیں ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہی ہم دور جدید میں کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں اب ذکر لاہور پولیس کے ایسے سپوت کا جس کے کام کا معیار یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی بھی کام ناممکن نہیں اور لوگوںکو عمرVirk کو عمر Work کہتے سُنا ہے لاہور پولیس کے تمام نا ممکن ٹاسک انکو دیے جاتے ہیں مجرموں کے لیے خوف کی علامت عمر ورک عام آدمی کے لیے انتہائی عاجز ہے یعنی عادی مجرموں کے لیے عمر ورک ایس ایس پی سی آئی اے اور عام آدمی کے لیے چیف ایڈمن فیسر لاہور پولیس ان سب باتوں کا مطلب یہ ہے کہ لگتا ہے۔
لاہور پولیس نے اس نعرہ یعنی اب نہیں تو کب ہم نہیں تو کون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے اور زبانی جمع خرچ ہی نہیں عملی اقدامات بھی کیے ہیں اس وقت مجموعی ملکی صورتحال میں تمام اداروں کو اسی طرح مکمل خلوص نیت سے کام کرنا ہوگا اب وقت آ چکا ہے کہ ہر شخص انفرادی اور ہر حکومتی یا پرائیویٹ ادارہ اجتماعی طور پر اپنے حصے کا عملی کام کرے اور پاکستان کو ایسا پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کرے جس کا خواب شاعر مشرق جناب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کوآنے والے وقتوں میں قائداعظم دیکھنا چاہتے تھے اور ہمیں بطور قوم اس آدمی جو مخلصی سے کام کر رہا ہو ٹانگیں کھینچنے کی بجائے اسے چڑانے کی بجائے اس کو تعریف اور حوصلہ افزائی کرنی ہو گی اور اس کے ساتھ دینا ہو گا۔
تحریر: محمد توقیر خان
help@noorekhuda.org
+923054410000