تحریر: میاں جمیل احمد
معزور افراد ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں ا نہیں ان کے حق سے محروم رکھنا معاشرے کا بہت بڑاظلم ہے انسان دو طرح سے معزوری کا شکار ہوتا ہے ایک پیدائشی معزوری جیسے پولیو اور دوسری اقسام اور دوسری معزوری کسی حادثہ کی وجہ سے رونما ہوتی ہے پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں معزوری کی بڑی وجہ پولیو اور حادثات کی کثرت ہے پیدائشی معزوری کی شرح شہروں کی نسبت گائوں میں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ پولیو کے ویکسین کی عدم دستیابی یا وقت ضرورت عدم دستیابی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں پیدائشی معزوری کی شرح بہت زیادہ ہے شہروں میں ٹریفک کا بہائو زیادہ ہونے کی وجہ سے آئے روز لوگ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں بہت سے تو چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے اور معزوری کا شکا ر ہو جا تے ہیں معزوری کی بہت سی اقسام ہیں ذہنی معزوری ،جسمانی معزوری ،آنکھوں کی بینائی نا ہونا یا پھر سننے یا بولنے میں رکاوٹ معزوری کی دوسری بہت سی اقسام ہیں۔
معزور بچوں کو والدین اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں کچھ والدین تو بچوں کو ان کی معزوری کی بنا پر اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں اور کچھ انہیںبے سہارا چھوڑ دیتے ہیںبہت سے والدین اپنے معزور بچوں کو ان کی معزوری کی بنا پربھیکا ری بننے پر مجبور کر دیتے ہیں ایک معزور بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو سب سے پہلے اس کی ماں کو لوگوں کی عجیب نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بے رحم معاشرہ کچھ سوچے سمجھے بغیر اپنی باتوں کے تیر سے ماں اور اس کے بچے کے دل میں زخم کر دیتا ہے جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس کے والدین بھی اسے اپنے اوپربوجھ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اس کی تعلیم و تر بیت پر توجہ نہیں دی جاتی اگر وہ سکول میں چلا بھی جائے تو لوگوں کی عجیب نظریں اسے احساس محروی اور معزوری کا احساس دلاتی ہیں سکولز کے اندر معزور افراد کے لیے غیر مناسب ماحول اور سہولیات کا فقدان اس کے احساس محرومی کو مرنے نہیں دیتا جس سے بہت سے معزور بچے بر’ائی کا راستہ اپنا لیتے ہیں یا پھر بیکاری بن جاتے ہیں اور اپنے مستقبل کو روشن کرنے کی بجائے تاریک بنا لیتے ہیں۔
اگر سائنسی نظریہ سے دیکھا جائے تو ایک معزور افراد کے اندر مشکلات سے لڑنے کی زیادہ طاقت اورصلا حیت ہوتی ہیں اس کے پاس مشکلات کے بہت سے حل ہو تے ہیں کیونکہ اس نے اپنی زندگی کو مشکلات سے لڑنے کے قابل بنا لیا ہوتا ہے اگر ہم دنیا میں نظر دوڑائیں تو بہت سے کامیاب لوگوں کی داستانیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی معزوری کو مجبوری نہیں بننے دیا اور معاشرے میں اپنا ایک نام اور مقام پیدا کیا اور بہت سے معزور افراد کے لیے عزم و ہمت کی علامت بن گئے ہیں پاکستان میں معزور افراد کے لیے بہت سے قوانین تو موجود ہے۔
لیکن ان قوانین کو صرف دستاویزات تک ہی محدود رکھا گیا ہے معزور افراد پہلے ہی بہت سی مشکلات کا سامنا کر کے اپنی تعلیم کو مکمل کرتے ہیں پھر انہیں نوکری کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں ہمارے سکولز اور کالج میں معزور افراد کے لیے ناسازگار ماحول ان کے حصول تعلیم میں بہت بڑی رکاوٹ ہے تعلیم میں ناکامی اور سکول و کالج کا ناسازگار ماحول بہت سے معزور افراد کو تعلیم سے دور اور غربت کی لکیر کے نیچے لے جاتا ہے۔
جس سے بہت سے معزور افراد بھیک مانگنے والا پیشہ اپنا لیتے ہیں پاکستان میں غیر ملکی ادارے بھی معزور افراد کی تعلیم تربیت پر پورا زور دے رہے ہیں اس کے باوجود دیہاتی علاقوں تک ان کی رسائی نہیں ہے جس سے دیہاتوں میں بسنے والے سپیشل پرسن بہت سی سہولیات سے استفادہ نہیں کر پاتے اور زندگی کی دور میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں میر ے خیال میں اگر حکومت غیر ملکی ادارے اور ہمارا معاشرہ ان عوامل پر عمل پیرا ہو جائے تو ہم سب مل کر معزور افراد کی زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں معزور افراد کے لیے بنائے گئے قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے اور جو ادارے ان قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہونی چاہیے قوانین کے اطلاق کے لیے لیبر ڈیپارٹمنٹ اور دوسروں اداروں کو عفلت نہیں کرنی چاہیے پرائیوٹ اداروں کو بھی معزور افراد کے لیے بنائے گئے سپیشل قوانین کا احترام کرناچاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی فنی تر بیت کے لیے مختلف پروگرام اور پروجیکٹ شروع کرنے کی ضرورت ہے عالمی ادارے خاص طور پر یواین او اور دوسرے بڑے اداروں کو بہت سے پروگرام شروع کرنے چاہیے معاشرے کا بھی فرض بنتا ہے کہ معزور افراد کے ساتھ اچھا برتائو کریں اور انہیں یہ احساس محرومی نہ ہونے دیں کہ ان کے اندرمعاشرے کے دوسرے افراد کی نسبت کم صلاحیت ہے آپ کی تھوڑی سی کوشش اور مدد ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔
تحریر: میاں جمیل احمد