ہر طرح کی عمر کے لوگ ملتے رہتے ہیں ۔بات چیت کا دائرہ تھوڑا سا بھی آگے بڑھے تو سو فیصد لوگوں میں “مایوسی” کا عنصر انتہائی کثرت سے نظر آتا ہے۔ جذباتی گزارش قطعاً نہیں کر رہا۔ ہمارے ملک کی غالب اکثریت متعدد حوالوں سے شدید مایوسی کا شکار ہو چکی ہے۔ اسے “ڈیپریشن” کی ابتدائی سطح یا شائد آخری منزل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
امیر ہوں یاغریب، مردہ وں یا خواتین، لڑکے ہوں یا لڑکیاں اور جس بھی روزگار سے تعلق رکھتے ہوں، حد سے زیادہ ذہنی شکست و ریخت کا شکار نظر آتے ہیں۔ بظاہر لوگ کھوکھلے سے قہقہے، ہنسی مذاق اور ٹھٹھہ کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ پر تھوڑی سی گفتگومیں اصل معاملات کھل کر باہر آ جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہم لوگ “خوش نہ رہنے والے لوگ” بن چکے ہیں۔ یاشائدنا خوش افراد۔ غمگین کا لفظ استعمال نہیں کر رہا۔ کیونکہ یہ صورتحال کی عکاسی کرنے سے قاصر ہے۔ اندازہ غیر ممالک میں جا کر کثرت سے ہوتا ہے۔
جہاں لوگ مجموعی طورپرہشاش بشاش اورقدرے پُرسکون نظرآتے ہیں۔اپنی قوم کے متعلق اس طرح کی عجیب سی بات کرنامشکل اَمرہے۔پرحقیقت یہی ہے یااس سے بہت قریب۔انسانی رویے بالکل وہی ہوتے ہیں جس طرح کے ریاستی طرزِعمل ہوتے ہیں۔معاملہ آسانی سے اُلٹ بھی گرداناجاسکتاہے۔جس طرح کے حکومت کے عملی اقدام ہوں گے،انسان تقریباًاسی طرح کی زندگی گزارنا شروع کردیں گے۔یاشائدمجبورہوکربالکل اس زاویے سے سوچنا شروع کردینگے۔دشواری یہ ہے کہ انتہائی پیچیدہ صورتحال مکمل مایوسی میں ڈھل چکی ہے۔ اردگرد نظر ڈالیے۔ہرسطح پریہ مسائل بھرپورزہرکے ساتھ نظر آئینگے۔
حکومتی بیانیے سے شروع کیجیے، کہ بہرحال اس کی طاقت اورمعاشرتی چھاپ اَزحدطاقتورہے۔کوئی ایک مثال لے لیجیے۔جیسے مقبوضہ کشمیرکوہماری شاہ رگ بتایا جاتا ہے۔ ریاستی موقف ہے کہ کشمیرپرہمسایہ ملک کاغاصبانہ قبضہ ہے اوروہاں بہت زیادہ ظلم ہورہاہے۔مانتے ہیں کہ یہ کافی حد تک ٹھیک ہے۔ردِعمل میں،ہمارے تمام قومی وسائل ایک خاص دفاعی انجن میں جھونک دیے گئے ہیں،جسکی عملی افادیت کے متعلق کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ پر کیاکسی مقتدرانسان نے یہ کہا،کہ ہمارے چاروںصوبوں میں سماجی اورمعاشی انصاف،مساوات،عملی ترقی اتنی ہی اہم ہے جتناکہ مقبوضہ کشمیرپراحتجاج دراحتجاج کرنا۔کوئی بھی یہ نہیں کہتاکہ جوبچاکچھاپاکستان ہمارے پاس موجود ہے، اسکوجنت نظیر کیسے بنایاجائے۔
پرنہیں ہم اپنااصل کام بالکل نہیں کرینگے۔ اپناگھرمکمل طورپرصاف نہیں کرینگے۔ہاں مقبوضہ کشمیرکے لیے زبانی جدوجہدمیں بھرپور مصروف نظر آئینگے۔کوئی یہ نہیں جرات کرتا،کہ بتائے کہ لڑکر، یا معاملات کوبگاڑکرکشمیرکوآزاد نہیں کرواسکتے۔ہمیں کوئی بے معانی یلغارکرنے بھی نہیں دیگا۔ہاں،یہ ضرورہوسکتاہے کہ کشمیر کو آزادکرواتے کرواتے ہم اپنی رہی سہی آزادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ غیر جذباتی طریقے سے سوچنا شائداب ہمارے بس سے باہر ہے۔اب ہمارے اختیار سے ہی مکمل باہر۔نسیم حجازی کے افسانوی ناول پڑھ کرہم اپنے قد اور قوت کابھی غلط اندازہ لگا بیٹھے ہیں۔ سنجیدہ معاملات میں زبان بندی ہوچکی ہے۔ ریاستی دوعملی، عوام کے ذہنوں میں غبارکی طرح منجمدہوچکی ہے۔یہاں انسان کُڑھ تو سکتا ہے، پرسچ بات کہنے کی اجازت نہیں مانگ سکتا۔
خیر،بین الاقوامی سطح کے معاملات کولپیٹ کراندر رکھنے کے بعدگزشتہ دہائیوں سے اندورنی خلفشار اور حماقتوں کی طرف آئیے۔مشرقی پاکستان کے ساتھ جس طرح کی بنیادی ناانصافی رکھی گئی۔اس کوبنگالیوں نے شروع دن سے تسلیم نہیںکیا۔زبان کے استعمال سے لے کرمعاشی استحصال تک،ہرطریقے سے ان کوایک غلام بنانے کی اَن دیکھی مضبوط پالیسی پرکام ہوتارہا۔ان کی سماجی حیثیت کومغربی پاکستان میں تضحیک کانشانہ بنایاگیا۔الیکشن جیتنے کے باوجود اقتدارتک نہیں پہنچنے دیاگیا۔جب ان کے جیتے ہوئے قائدین نے اپناجمہوری حق مانگنے کی کوشش کی،توانھیں غدار قراردیکر،عسکری طاقت سے بربادکرنے کی کوشش کی گئی۔ جزئیات بہت تکلیف دہ ہیں۔عرض کرونگاکہ اب ہم یہ بھی ماننے کے لیے آمادہ نہیں،کہ2017ء کابنگلہ دیش ہم سے ہرلحاظ سے کامیاب ہے۔
معیشت سے لے کرسیاست،عملی رویوں سے لے کرمذہبی رجہانات،پرانے مغربی پاکستان اورآج کے پاکستان سے زیادہ بالغ ہیں۔مگرہم توبنگلہ دیش کی ترقی کا ذکر کرنابھی گناہ سمجھتے ہیں۔کوئی بھی پوچھ نہیں سکتا،کہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کو شایع نہ کرکے،کون سا تیر مار لیا گیا۔اس رپورٹ کوپڑھ کرانسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس درجہ سرکاری بے حسی اوراس درجہ زیادتی۔ روح کانپ جاتی ہے۔مگرصرف اورصرف جھوٹ کاسہارالے کرایک بہیمانہ ظلم کوپردے کے پیچھے چھپانے کی بچگانہ کوشش کی گئی۔ مگر سچ پھربھی سامنے آگیا۔سوال یہ ہے کہ جب ہم اپنے اہم ترین معاملات میں جھوٹ بولتے ہیں، توعام زندگی میں بھی اسی طرزِعمل کے حامل ہونگے۔جب ملک میںبلندترین سطح کے لوگ مسلسل دروغ گوئی کرتے ہیں،تووہ قومی شعاربن جاتاہے۔آج بھی وہی حال ہے۔ آنے والے کل میں بھی یہی ہوگا۔اب ہماری ذاتی اورریاستی پالیسی کی فکری اساس مبالغہ اورکمزورسچ پرمبنی ہے۔
بہت سی مثالیں ہیں۔یہ بتایاجارہاہے کہ ملک بے مثال ترقی کررہاہے۔اخباری اشتہارات کی ادنیٰ مہم چلا کر ترقی کی قیامت برپاکردی ہے۔مگرحقیقت میں کچھ بھی نہیں۔چاروں صوبوں کولے لیجیے۔کسی جگہ بھی کوئی مثالی نظام موجودنہیں ہے۔ایک قریبی دوست چندماہ پہلے لاہور سے کراچی،کاروبارکے سلسلے میں منتقل ہوئے۔دوہفتے بعد لاہورآتے ہیں کیونکہ فیملی لاہورمیں ہی ہے۔انھوں نے ایک کارخانہ لگایاہے۔چنددن پہلے ان سے بات ہوئی تو کراچی کے متعلق بہت مشکل سی باتیں معلوم ہوئیں۔ بتانے لگے کہ کراچی کے اکثرعلاقوں میں کوڑے کرکٹ کے پہاڑپڑے ہوئے ہیں۔غلاظت،پلاسٹک کے لفافے اور گندگی کے کوہ ہمالیہ ہرطرف بلکہ ہرعلاقے میں کثرت سے موجود ہیں۔
پوش ایریاز کے کمرشل علاقوں میں بھی صفائی کاکوئی انتظام نہیں۔ان کے بقول،اکثرعلاقوں میں سڑانداوربدبواس شدت سے موجودہے،کہ وہاں سانس لینا مشکل ہے۔کلفٹن پرموجودایک انتہائی مہنگے ریسٹورنٹ کی بات بتانے لگے کہ اس سے متصل اس درجہ غلاظت تھی کہ گاڑی سے نکل کروہ صرف بدبوکی وجہ سے الٹیاں کرنے لگ گیا۔یہ ایک ایسے عام سے تاجرکے تاثرات ہیں،جسکی کسی قسم کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے۔یہ بھی بتایاکہ نلکے کا پانی، اَزحدزہریلہ اورگنداہے۔اس کے پینے کے بعدانسان متعدد بیماریوں کایکدم شکارہوجاتاہے۔جس میں یرقان،نظام ہضم کی بیماریاں اوردیگرعلتیں شامل ہیں۔مگراب کراچی کے عام لوگ اسکواپنامقدرسمجھ بیٹھے ہیں۔
انھیں یقین ہے کہ ان کے معاملات حل کرنے کے لیے کوئی بھی نہیں آئیگا۔یہ اس درجہ بے بسی ہے کہ لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں۔باقی صوبوں میں بھی یہی حال ہے۔یہ درست ہے کہ صفائی کے معاملات میں لاہورسب سے بہترہے۔مگربے ہنگم ٹریفک اورشورلوگوں کوپاگل کرچکاہے۔کسی کوعلم نہیں کہ اس شہرمیں کتنے موٹرسائیکل ہیں۔کتنی گاڑیاں ہیں۔کوئی بھی موٹر سائیکلوں کی تعدادمقررکرنے کے لیے کوشاں نہیں ہے۔ لاہور سے باہرنکل کردیہاتوں اورچھوٹے قصبوں کاکوئی والی وارث نہیں ہے۔یہاں بھی بدانتظامی،گنداورکوڑے کے ڈھیرلوگوں کی زندگی کاجزو بن چکے ہیں۔مجموعی طور پر پورے ملک میں مغربی سطح کی ترتیب اورقرینے کاایک شہر یا قصبہ تک نہیں ہے۔لوگ پہلے بھی بے بس تھے اورآج بھی عہدتحقیرمیں ہیں۔کوئی راستہ نہیں،کوئی مسیحا نہیں۔ان حالات میں کیامایوسی واقعی گناہ ہے یاایک فطری ردِعمل!
حکومتی ادارے بذات خوداناانصافی اورمایوسی پھیلانے کے اعلیٰ کارخانے ہیں۔کسی بھی حکومتی ادارے سے کام پڑ جائے،آپکوعزت نفس گروی رکھ کرآنی پڑیگی۔لوگ تواب یہاں تک کہتے ہیں،کہ جوسرکاری عمال”پیسے لے کر”کام کردے،وہ ولی ہے۔کیونکہ یہاں توعمال رشوت لینے کے باوجودکام نہیں کرتے،فون نہیں سنتے۔معاف کیجیے۔ایسے ایسے منصف بھی موجودہیں جوکیس میں دونوں طرف سے پیسے وصول کرنافرض سمجھتے ہیں۔ستم یہ بھی ہے کہ کئی وکیل حضرات بھی اب منصفوں کوپیسے دینے میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔
ملک کی کسی کچہری میں چلے جائیں۔ آپکو سیکڑوں،ہزاروں سائل نظرآئینگے۔کھانے پینے کی دکانیں بھری ہونگی۔لوگ پریشان حال دھکے کھارہے ہونگے۔ کالے کوٹ والوں کی فوج ظفرموج سیلاب کی طرح موجود نظرآئیگی۔صرف ایک چیزموجودنہیں ہوگی اوروہ ہے انصاف۔اب تولوگ تھانے کچہری میں جانے کوصرف وقت کی بربادی گردانتے ہیں۔چپ کرکے اپنے ساتھ ظلم کو مقدرسمجھ کرخاموش ہوجاتے ہیں۔ایسے بہت سے کیس میری نظرمیں ہیں۔جہاں لختِ جگریابیٹی کوقتل کردیاگیا،بے آبروتک کیاگیاہے۔مگرلوگ نظام انصاف میں ذلیل ہونے کے بعداپنے گھروں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ وہ بے بس ہیں کچھ نہیں کرسکتے۔بے بسی،انھیں مکمل طورپرمایوسی کاتحفہ دیکرخاموش کردیتی ہے۔
ہرشعبہ میں ہزاروں مثالیں ہیں۔کیالکھوں اورکیانہ درج کروں۔یہ ملک یاریاست بھرپورطریقے سے خودکشی کر رہی ہے۔میرے خیال میں توکرچکی ہے۔لوگ اس درجہ مایوس ہیں کہ اب مایوسی انھیں نارمل نظرآتی ہے۔بجھے ہوئے چہروں کے ساتھ سانس لیتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شائدکوئی مسیحاآجائے۔پرصاحبان!مسیحاکبھی آسمانوں سے نہیں آتا۔وہ توقوموں کے اندرسے جنم لیتا ہے مگرمجھے یقین ہے کہ اس بنجرقوم میں سیاسی مسخرے تو پیدا ہوسکتے ہیں،مسیحا نہیں!یہی ہمارامقدرہے اوریہی عملی نصیب!