تحریر : علامہ محمد یاد گوہر
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے صحت کو بیماری سے پہلے، امارت کو غربت سے پہلے اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت جانو۔اولیائے امت اور علمائے ربانییّن ہمیشہ یہ زرّیں اصول اپنے پیش نظر رکھتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پاکانِ امت کی زندگیوں میں کوئی وقت ضائع نہیں ہوا وہ وقت کا صحیح اور حقیقی مَصرف جان گئے۔اور انہوں نے اپنی زندگیاں اللہ تعالی کی رِضاکے حصول اور محبت مصطفی ﷺ سے سرشاری میں گزارکر مقصود حقیقی کو پالیا ایسے ہی پاکباز لوگوں میں ایک عظیم روحانی شخصیت حضرت خواجہ محمد اکبر علی نقشنبدی مجددی رحمتہ اللہ علیہ بھی ہیں آپ کی ولادت ۱۸ رمضان المبارک ۱۳۱۴ ھ بمطابق21فروری1897ء ریاست کشمیر میں تحصیل راجوڑی کے خوبصورت گاؤں کوٹلی کالابن میں ایک خدا رسیدہ بزرگ حضرت خواجہ محمد شہباز سلطان قادری رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں ہوئی۔ آپ اپنے زمانے کے درویش اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ علم جفر میں مہارت تامہ رکھتے تھے انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کو دیکھ کر فرمایا کہ میرا یہ بیٹا قوم کا سردار اور مختلف صلاحیتیوں کا مالک ہوگا اور ہزار ہا لوگ ان سے فیض یا ب ہوں گے۔ خواجہ صاحب میں بچپن سے ہی آثار ولایت ظاہر تھے اَوائل عمر میں آپ کے والد گرامی وفات پاگئے۔علوم اسلامیہ کی تحصیل کے بعد فوج میں ملازمت اختیار کی دوران ملازمت بھی ہر لمحہ جستجوئے حق بے چین رکھتی بتقا ضاء ذوقِ طبعی جستجوئے رہبر کامل جاری رہی۔ سعادت ازلی نے ساتھ دیا اور خواجہ محمد جعفر علی گجراتی سجادہ نشین دربار شاہ دولہ ( خلیفہ قطبِ زماں حضرت پیر چنن شاہ صاحب آلو مہار، گجرات) سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا یہ شہباز بڑے عروج پر پہنچے گا اور اس سےجہاں کا ایک حصہ فیض یاب ہوگا چند دنوں میں شاہ صاحب نے حضرت خواجہ محمد اکبر علی کو مقامات سلوک طے کروا کر خلافت اور اجازت سے مالا مال کردیا ۔ آپ کو کمال باطنی کشادگی اور عروج حاصل ہوا کہ بڑے بڑے خلفاء آپ پر رشک کرنے لگے۔
خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے قطبِ زماں حضرت پیر چنن شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ آلو مہار شریف سے بھی خرقہ خلافت حاصل کیا۔ حضرت سید صاحب کی وفات کے بعد آپ کے ایک دوست کے توسط سے آپ کی ملاقات قبلہ عالم خواجہ خواجگان حضرت قاضی محمد سلطان عالم رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی۔حضرت قاضی صاحب نے بھی نظرِ فراست سے آپ کو گوہر نایاب جان لیا چنانچہ دوران ملاقات ایک کتاب مطالعہ کے لئے عنایت فرمائی جس میں لکھا تھا کہ ایک بزرگ سے بیعت ہو تو دوسرے بزرگ سے فیض حاصل کرنا درست ہے ۔ اسی دوران ایسی باطنی توجہ فرمائی کہ مقام بالا تک پہنچا دیا یوں ایک ہفتہ، عشرہ میں سلوک مجددیہ کی تکمیل کروادی۔ بایں طور آپ کمالات سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے مجمع الجرین ثابت ہوئے ۔ حضرت قبلہ عالم رحمتہ اللہ علیہ نے خلافت واجازت عطا فرمائی اور رخصت ہونے کے وقت فرمایا شہباز !جا خلیفہ بر خلیفہ برخلیفہ جاؤ تم شہباز طریقت ہو تمہارے خلفاء در خلفاء ہوں گے اور تمہارا فیض تا قیامت جاری رہے گا۔ چیچیاں شریف سے روانہ ہوئے اور مختلف مقامات پر فیوض برُکات تقسیم کرتے ہوئے بالآخر پیر کریاں پاکپتن شریف میں مستقبل سکونت اختیار کی۔
آپ نے جہدو ریاضت کے سلسلہ میں کئی اعتکاف فرمائے لاتعداد کرامات آپ سے ظاہر ہوئیں بلکہ آپ کے متعلق یہ مشہور ہوا کہ جس کو ہڑکے مریض پر آپ ہاتھ پھیر دیں تو اسے شفا ہوجاتی ۔چنانچہ ہزاروں مریضوں نے آپ کے دست اقدس سے شفا پائی آپ حلقہ ہائے طریقت میں جب توجہ فرماتے تو سنگیوں پر وجدطاری ہو جاتا ایک مسجد میں آپ نے دوران حلقہ اسم ذات اللہ زبان سے نکالا تو مسجد کی دیواریں لر زنے لگیں۔ خواجہ صاحب کا ادب سکھ اور دیگر غیر مسلم بھی کیا کرتے تھے اور اپنا گرہ مانا کرتے تھے ۔بے شمار ہندو اور بد مذہب آپ کے دست حق پر ست پر اسلام لائے۔ آپ نے رشدو ہدایت کے سلسلہ میں قرآن و سنت اور شریعت مصطفی ﷺ پر ہمیشگی اختیار کرنے اور مریدیں، سنگیان طریقت کو بھی یہ تعلیم دینے کا درس دیا ۔ آپ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی عملی تصویر اور قرون اولیٰ کے بزرگوں کے اَخلاق کا مجموعہ تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ آپ پنجابی شاعری بھی فرمائے کرتے تھے۔ خواجہ صاحب بہت خوش شکل اور خوش لباس تھے۔ چہرے سے رعب ٹپکتا تھا۔ ایک بار آپ کھوکھر سے نارووال آرہے تھے کہ کچھ سکھوں نے آپ کو دیکھا۔ وہ آپ کی نورانیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ قدم بوس ہو کر آداب بجا لائے۔
آپ تارک الدنیادرویش اور ایک گوشہ نشین بزرگ تھے۔ آپ کی زیادہ توجہ تزکیہ نفس اور ذکر الٰہی پر مبذول رہی۔ آپ لباس و طعام ،رہن سہن اور زندگی کے دیگرمعامالات میں سادگی کے عدیم المثال پیکر تھے۔ آپ سلوک و طریقت کے مقامات پر کامل شیخ اوررہنما تھے۔ آپ باطنی توجہ میں عدیم المثال تھے۔ آپ پر حدیث مبارکہ “کنتُ بصرہ الذی یبصربھا” حقیقتاََ صادق آتی تھی۔ یہاں تک کہ آپ نے جس شخص کو ایک مرتبہ بھی نظرعنایت اور باطنی توجہ سے دیکھا وہ ضلالت و گمراہی سے محفوظ ہو گیا۔ سبحان اللہ ! آپ تمام عمر یاد خدا کا درس دیتے رہے بندگان خدا کو مالک حقیقی سے ملاتے رہے آپ کی کرامات و مکاشفات بے شمار ہیں آپ نے اپنے وصال کی ڈیڑھ دو ماہ قبل اپنی وفات کی خبر دی۔ آپ نے بروز بدھ نومبر1971میں وفات پائی۔خواجہ صاحب کے معمولات یہ تھے: نوافل میں آٹھ رکعت تہجد، دو رکعت تحیتہ الوضو، تہجد کی ہر رکعت سورہ یٰسین کی ایک مُبین پر ختم ہوتی اور آخری رکعت میں سورہ یٰسین مکمل ہو جاتی۔ اِشراق اور اَوَّابین بھی ادا کئے جاتے۔ تہجد کے بعد ختمِ حضرت مجدد ہوتا۔ اس کے علاوہ حبسِ دم سے نفی اثبات، درود تنجینا اور درود ہزرہ تین سو با روزانہ، یا حيی یا قیوم برحمتک استغیث پانچ سو بار روزانہ، ذکراسم ذات پچیس ہزار بار روزانہ۔
مراقبات ان کے علاوہ تھے۔ آپ مراقبات کی ہفتہ وار گردان کرتے۔ ہر ہفتے ایک مراقبہ پیشِ نظر رہتا۔ ظہر کی نماز کے بعد کتابی وطائف پڑھتے۔ ان میں دلائلُ الخیرات کی یومیہ منزل، حزب الاعظم، درود مستغاث،شجرہ طریقت اور قرآن مجید کی پاو منزل شامل تھے۔ آپ کے دو صاحبزادے تھے ، فرزند اول حضرت خواجہ ابوالطاہر محمد نقشبند ایک جَیّد عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ باکما ل صوفی اور روحانی بزرگ تھے۔ آپ نے اپنے والد گرامی کے مشن کو آگے بڑھایا اور تادم آخر تبلیغ و تعلیم میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ آپ نے ۱۰اپریل ۲۰۰۴ کو وفات پائی ۔ آپ کا مزار آپ کے والد گرامی کے دائیں طرف مرجع خلائق ہے۔ آپ نے تدریس وتبلیغ کےلئے اپنے والد گرامی کے حکم سے ۱۹۵۶ میں ایک عظیم علمی درس گاہ جامعہ نقشبندیہ رضویہ فیض المصطفٰی کی بنیاد رکھی جواب بھی سرکار دوعالم ﷺ کی امت کو رجال الدین سے بہرہ یاب کر رہا ہے اور رفاہ عامہ کے سلسلہ میں رحمتہ اللعالمین آئی ٹرسٹ ہسپتال آپ کی دینی اور سماجی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نظام مصطفی ﷺ کے لیے جمیعت علمائے پاکستان کا بھرپورساتھ دیا۔ علامہ شاہ احمد نورانی اور دیگر جلیل القدر علماء کے شانہ بشانہ کام کیا۔
فرزند ثانی حضرت خواجہ فقیر محمد درویش منش صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام اور نفاذ شریعت اسلامیہ کے بہت بڑے داعی تھے انہوں نے حضرت شیخ الحدیث سید احمد ابو البرکات شاہ کے زیر سایہ علوم اسلامیہ کی تکمیل کے کچھ عرصہ بعد جامعہ نقشبندیہ رضویہ میں تدریس فرمائی۔ نظام مصطفی ﷺ کے لیے جمیعت علمائے پاکستان کا ساتھ دیا۔ علامہ شاہ احمد نورانی اور دیگر جلیل القدر علماء کے شانہ بشانہ کام کیا۔ جمیعت علمائے پاکستان کے ضلعی کنوئنیر منتخب ہوئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مخلوق خدا کی خدمات کا فریضہ بھی باحسن و خوبی سرانجام دیا اور ہزاروں لوگوں کی عشق مصطفی ﷺ کا اسیر بنایا۔فروری ۲۰۰۴ کو آپ خالق حقیقی سے جاملے ۔ آپ کا مزار اپنے والد گرامی کے دائیں شمالی جانب مرجع خلائق ہے۔
تذکرہ فخر المشائخ پیر طریقت رہبرِ شریعت حضرت صاحبزادہ ابوالطاہر محمد نقشبند رحمتہ اللہ علیہ: دنیا کی تاریک اور بھیانک بے نور فضا میں اسلام نے جو شمع روشن کی تھی اس نے انسان کے قلوب کی اندھیری وادیوں میں روشنی پیدا کی یہ اسلام جس نے انسان کو اس کی عظمت کا شعور دیا اور معاشرے میں عزت کا مقام عطا کیا اسی اسلام نے انسان کو ہی اس کی درست منزل کا شعور اورفہم عطا کیا بلکہ اس منزل کی طرف جادہ ء پیمائی کا طریقہ بھی سکھایا اسلام کی ان مقدس اور اَن مٹ تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وقتاََ فوقتاََ امت مصطفویٰ ﷺ میں بڑے بڑے علماء اولیاء صوفیاء اوربزرگان دین پید ا کیے جنہوں نے اپنی فہم و فراست ، کردار و عمل اور شبانہ روز جدو جہد سے کتاب و سنت کی عظمتوں کے نقوش لوح ِدل پر جما دیے اور سنت مصطفویٰ ﷺ پر عمل کر کے لوگوں کے سامنے اَخلاق و کردار کے بہترین نمونے پیش کیے ۔ انہیں برگزیدہ ہستیوں میں پیر طریقت رہبر شریعت حضرت خواجہ ابو طاہر محمد نقشبند مجددّی صدیقی سلطانی بھی شامل ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت ریاست جموں کشمیر میں ہوئی۔ آپ کی ولادت پر آپ کے والد گرامی شہباز طریقت محمد اکبر علی نے فرمایا کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ آسمان کا سورج میرے گھر سے طلوع ہو رہا ہے ۔ اسی صبح کو حضرت صاحبزادہ ابو الطاہر محمد نقشبند کی ولادت ہوئی اور آپ کی بشارت درست ثابت ہوئی اور حضرت صاحبزادہ ابو الطاہر محمد نقشبند سے ایک عالَم مستفیض ہوا۔ آپ اپنے عہد کی ایک منفردوممتاز اور جامع کمالات شخصیت تھے۔ آپ اَسلاف کے اِیثار، اِخلاص، استقامت ووَرَع اورتقوی کا کامل نمونہ تھے۔ عالِم باعمل تھے طریقت اور شریعت کے جامع تھے۔آپ علوم اسلامیہ کے بے مثال معلم تھے آپ علوم دینیہ میں جامع معقول ومنقول تھے۔ آپ بیک وقت شیخ کامل ، محدث اعظم اور سراپا افتخار مبلغ تھے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، علماء میں بیٹھے ہیں تو ہر علم پر سیر حاصل بحث فرمارہے ہیں۔ مشائخ میں جلوہ فرما ہیں تو تصوف کے وہ نکتے ارشاد فرماتے کہ گویا ایمان کے گلشن میں بہار آ گئی ہو۔ مریدوں میں بیٹھے ہوں تو تربیت کے دریا بہا دیتے تھے۔ طلباء میں بیٹھے ہوں تو رازی کی یاد تازہ فرما دیتے تھے۔ آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی دنیا آپ تعمیر کرتے ہیں۔آپ کسی مناصب کے متمنی وطلبگار نہ تھےبلکہ آپ ایسی ہستی تھے جس سے مناصب کو عزت ملتی ہے۔
سکول کی ابتدائی تعلیم کے بعد مدارس دینیہ کی طرف رجوع کیا۔ ابتدائی کتب فارسی ، صرف و نحو، فقہ ،اصول فقہ، منطق، معقول،منقول، حدیث ، تفسیر اور دیگر علوم اپنے وقت کے مقتدراساتذہ سے حاصل کئے اور صحاح سِتہ احادیث کے استاد محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمدسردار احمد بانی جامعہ رضویہ مظہرالاسلام فیصل آبادہیں جبکہ علامہ سعید احمد سابق خطیب داتا دربار، مولانا مفتی محمد حسین سکھر والے، مفتی عبدالقیوم ہزاروی جامعہ نظامیہ والے، علامہ فیض احمد اویسی بہاولپور والے اور صاحبزادہ غلام نقشبند چورہ شریف آپ کے ہم سبق تھے۔ دورۂ حدیث کی تکمیل کے لئے آپ کو امیر ملت حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے محدث اعظم پاکستان کی خدمات میں بھیجا۔ علوم دینیہ سے فراغت کے بعد اپنے والد برزگوار کی ہدایت پر غوثِ زمان، پیکر صدق و صفا حضرت خواجہ محمد صادق رحمتہ اللہ علیہ ، کوٹلی شریف آزاد کشمیر کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ صدق اور اخلاص کے ساتھ منازل سلوک طے کیں اور پنے شیخ کی اجازت سے منصب رشدو ہدایت پر فائز ہوئے اوریوں آپ نے شریعت و طریقت دونوں کی خوب خدمت کی اپنے شیخ کامل کی رہنمائی میں روحانی منازل طے کیں اور ان کے فیضان سے ایک کثیر حصہ پایا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ آپ اپنے پیرو مرشدکے فیضان کے قاسم ٹھہرے اور اس عظیم مشن کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے ایک عظیم دینی درس گاہ جامعہ نقشبندیہ رضویہ فیض المصطفیٰ کی بنیاد رکھی۔ جس کا سنگ بنیاد محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمدسردار احمد رحمتہ اللہ علیہ نے رکھا جس سے سینکڑوں علماء ، قراء حفاظ فارغ التحصیل ہو کر نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی دین و ملت کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
آپ کا انداز ِ بیان شستہ، دھیما اور سلیس تھا۔ اپنی تقاریر کے دوران کبھی کسی کی دل آزاری نہ فرمائی بلکہ آپ ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ محبت و عشقِ مصطفی، سنت مصطفی ﷺ کی پیروی، اصلاح عقائد اوراصلاح احوال آپ کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ آپ کو اپنے شیخ طریقت سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی جس کی وجہ سے تمام امور میں اپنے شیخ طریقت سے رہنمائی لے کر فیصلہ فرماتے اور اکثر اپنے شیخ طریقت کا محبت بھرا تذکرہ فرماتے رہتے اور اپنے سنگیان طریقت کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین فرماتے۔امت مسلمہ کی نوخیز بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ نے تحفیظ القرآن و علومِ اسلامیہ للطالبات اور النقشبند اسلامک سنٹر جس کا الحاق عالم اسلام کی عظیم علمی درس گاہ دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے ساتھ ہے کا قیام عمل میں لایا۔ جس میں حضور ﷺ کی امت کی بچیوں کی علمی ، فکری ، تربیتی، اصلاحی اور روحانی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ آپ کو ہمیشہ امت مسلمہ کی علمی تشنگی اور تصوف سے دوری کا احساس زیاں پریشان کیے رکھتا جس وجہ سے آپ نے اپنی ساری زندگی اپنے اسلاف کی تعلیمات کی پاسداری کرتے ہوئے شریعت اور طریقت کو جمع کر کے امت مسلمہ کی تعلیم وتربیت اور عوام الناس کی خدمت کو شعار بنایا ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی حیات مبارکہ ہی میں ان کا علمی و دعوتی صدقہ جاریہ، جامعہ نقشبندیہ کی چہار دیواری سے نکل کر بین الاقوامی سطح پر پھیل چکا تھا، آپ کے تلامذہ نے جابجا ادارے قائم کئے، مساجد تعمیر کیں، دعوت و ارشاد، تدریس ، تصنیف و تالیف، علم و تحقیق، خطابت اور جدید پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو ابلاغ دین کے لئے مہارت کے ساتھ استعمال کیا۔ یہ انشاء اللہ تا قیامت آپ کے لئے صدقہ جاریہ رہے گا۔
آسٹریلیا کے مشہور شہر میلبورن میں بھی ایک عظیم الشان ادارہ جامعہ طیبہ کے نام سے آپ کی فیض کرم سے عرصہ بارہ سال سے دین کی خدمت میں مصروف ہے۔ جس کے ڈائریکٹر آپ کے فرزند صاحبزادہ عبدالواحد ہیں خدمت خلق کا عظیم فلاحی منصوبہ رحمت للعالمین ٹرسٹ آئی ہسپتال (جو کہ دو ایکڑ پر مشتمل ہے) پاکپتن شریف جس میں ہزاروں مریض صحت یاب ہو رہے ہیں یہ آپ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے ۔ علاوہ ازیں آپ نے ملک بھر میں ستائیس مقامات پر دینی ادارے قائم کیے جو قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں ایک عظیم معلم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک دور اندیش مربی بھی تھے اور مرشد کامل بھی۔ آپ کے تلامذہ اور متوسلین میں پابندی شریعت کا گہرا رنگ پایا جاتا ہے ۔ آپ کی یہی تربیت آپ کے مریدین اور متوسلین کا طرہ امتیاز ہے۔ آپ ایک طویل عرصہ جامع مسجد غلہ منڈی میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے۔ آپ کوئی پیشہ و رخطیب نہ تھے اور نہ ہی آپ کی تقریر کسی رسمی تقریر کا نمونہ ہوتی ۔ آپ کے اَخلاف، اولاد امجاد،فلاحی کام اور تلامذہ کے علاوہ آپ نے دو عظیم یاد گاریں چھوڑیں ہیں: جامعہ نقشبندیہ رضویہ اور رحمتہ للعالمین آئی ہسپتال۔ ان دونوں اداروں کی تعمیرو تشکیل پر آپ نے اپنی عمر عزیز صرف فرمائی۔ آپ کی ان یادگاروں کو کامیابیوں کی بلندیوں پر لے جانے کے لئے آپ کے صاحبزادگان اور موجودہ انتظامیہ نے جامعہ نقشبندیہ رضویہ کی عصر حاضر کے تقاضوں کےمطابق جدید عمارت کی تعمیر اور اس کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لئے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے قائم کردہ دینی و عصری علوم کےادارہ کا تعمیراتی منصوبہ :حضور بابافرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا شہر پاکپتن شریف جس قدر تاریخی اہمیت کا حامل ہے اسی قدر ہی پسماندگی کا شکار ہے۔
ضلع پاکپتن شریف میں دینی و عصری علوم اور طبی سہولیات کافقدان ہے الحمداللہ رحمتہ العالمین آئی ہسپتال (ٹرسٹ) اپنے طبی مقاصد میں خاطر خواہ کا میابیاں حاصل کر چکا ہے روز بروز آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور تعلیمی شعور کے باعث۱۹۵۶ء میں حضرت صاحبزادہ ابوطاہر محمد نقشبند کے قائم کردہ ادارہ جامعہ نقشبندیہ رضویہ کی عمارت ناکافی ہوگئی ہے لہذا ٹرسٹ انتظامیہ نے عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیڑھ ایکڑ رقبہ عقب رحمتہ للعالمین ہسپتال راکھ پل،ایجوکشنل کمپلیکس کی تعمیرکا آغاز کر دیا ہے۔اس نئے منصوبہ کا اجمالی خاکہ: اس جامعہ میں مکمل دینی تعلیم کیساتھ ساتھ عصری وفنی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ دی جائے گی۔ شعبہ قرآن و تفسیر، شعبہ حدیث و فقہ، شعبہ سائنس، شعبہ تجوید و قرآء ت، ووکیشنل انسٹیوٹ، النقشبند ریسرچ سنٹر، معاشیات، شعبہ لسانیات، شعبہ کمپیوٹر سائنس، لائبریری، رہائشی بلاک، جامع مسجد، غیر نصابی سرگرمیاں، ایڈمن بلاک اور ان ڈورجم شامل ہیں۔آپ کی ساری زندگی ایثار و اخلاص، جُہد مسلسل سے عبارت اور اسلام کی سر بلندی کے لئے وقف تھی۔ اللہ تعالی آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔ آپ کے تمام صاحبزادگان ان کے مشن کو نہ صرف کامیابی سے چلا رہیں ہیں بلکہ اس کی ترقی میں روز بروز اضافہ فرما رہے ہیں اور اس سے یقینا آپ کی روح کو تسکین مل رہی ہو گی۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال مارچ اور یکم اپریل کو آستانہ عالیہ نقشبندیہ اکبریہ مجددیہ پیر کریاں پاکپتن شریف میں منعقد ہو تا ہے جس میں اندرون ملک اور بیرون ملک سے سنگیان طریقت اور عوام الناس شرکت فرماتے ہیں اور جس میں ملک بھر کے علمائے کرام۔ صوفیائے عظام اپنے مواعظ حسنہ سے نوازتے ہیں اور ثناء خوان مصطفیﷺ اپنے اپنے ذوق کے مطابق خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ہر گز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
تحریر : علامہ محمد یاد گوہر
(ایم۔ اے فاضل بھیرہ شریف)
Website: www.irca.org.au, www.tayyibainstitute.org, www.jnaqshbandiyah.org
Facebook: www.facebook.com/RahmaTalLilAlameenTrust