تحریر: سجاد علی شاکر
بیماری کا علاج، بیماری سے بچاو کی کبھی برابری نہیں کر سکتا ہے۔ علاج اس وقت بہتر طور پر کیا جاسکتا ہے جب بیماری موجود ہو۔ اس کے باوجود علاج ہر وقت کامیاب بھی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اخراجات کے بارے میں دیکھا جائے تو بیماری کے بچاؤ پر اگر دس روپے یا سو روپے خرچ آتے ہیں تو علاج پر سوگنا، ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ اخراجات آسکتے ہیں اور علاج کامیاب نہ ہو تو جان بھی جا سکتی ہے۔
البتہ بیماریوں سے بچاؤ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسان کو تندرست رکھ سکتا ہے اور اسے معذور یا کمزور ہونے سے بچا سکتا ہے۔ بیماریوں سے بچاؤ ہی کی بدولت آج دنیا میں بے شمار افراد لمبی عمر تک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوئے ہیں۔ آج سے پچاس ساٹھ سال قبل بچوں کی اکثریت بیشتر موذی امراض مثلاً خناق، خسرہ، پولیو، تپ دق، ہپاٹائٹس اور دستوں وغیرہ میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوجاتی تھی لیکن آج بہت سی خطرناک بیمارہیوں سے بچاؤ ممکن ہوگیا ہے۔
ان خطرناک بیماریوں پر کامیابی انفیکشن کنٹرول کے بہتر طریقوں، غذاؤں کے بارے میں کلی معلومات، ٹیکوں کے طریقوں میں ترقی، بڑی تعداد میں ایکس رے کی مہم اور باقاعدہ طبی معائنہ جس سے امراض کی ابتدا میں تشخیص ہوجاتی ہے، کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ صحت و صفائی کے بارے میں آگاہی کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے۔ جو سرمایہ کسی پسماندہ علاقے میں بہت بڑے اسپتال قائم کرنے پر صرف کیا جائے، اس کے بجائے اسی سرمائے کو اس علاقے میں جراثیم، کیمیائی مادوں اور ضرر رساں معدنیات سے پاک صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا جائے تو وہاں شاید اس بڑے اسپتال کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
اسی طرح بڑے بڑے اسپتالوں کی تعمیر سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو آلودگی سے پاک، ہوا، پانی اور غذا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں صحت و صفائی کا گہرا شعور بیدار کیا جائے۔آج ہر دسواں پاکستانی ہیپاٹائٹس کا مریض ہے یہ خاموش قاتل مرض جس سے خبردار رہنے کے لیے تمام لوگوں کو ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ ضرور کرانا چاہیے۔ ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی وجوہات کے بارے میں عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ شعور اور آگہی کی فراہمی وقت کا اہم ترین تقاضا بن گیا ہے پاکستان میں چھ سے سات فیصد لوگ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں جبکہ ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی شرح 2.5فیصد ہے۔
دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس وقت تمام ممالک میں مجموعی طور پر ہیپاٹائٹس اے کے 1.4 ملین اور بی کے 2بلین ہیں اور ہیپاٹائٹس سی میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ مبتلا ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی جگر کے سکڑنے کی بیماری سرہوسس اور جگر کے کینسر کی ایک بڑی وجہ ہے جبکہ بی اور سی سے بچاؤ ممکن ہے۔ ہیپاٹائٹس کے وائرس کی پانچ اقسام ہیں۔ اے، بی، سی ، ڈی اور ای ہیں۔ آلودہ پانی اور ناقص خوراک ہیپاٹائٹس اے اور ای کے پھیلنے کی بڑی وجہ ہے جبکہ ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی استعمال شدہ سرنج و خون کی منتقلی کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ خواتین میں ہیپاٹائٹس کی بڑی وجوہ میں بیوٹی پارلر کا کردار اہمیت کا حامل ہے جبکہ مردوں میں غیر معیاری ہیئرڈریسز یا حجام ہیپاٹائٹس پھیلانے کی اہم وجہ ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی بیماری، خون، اس کی مصنوعات کے تبادلے اور استعمال شدہ سرنج یا مشترکہ انجکشن، شیونگ بلیڈ، ناک یا کان چھیدوانے والے آلودہ اوزار، بیوٹی و ڈینٹل اور دیگر سرجری آلات کا جراثیم سے پاک کیے بغیر استعمال کرنے سے پھیلتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی کی کوئی ویکسین موجود نہیں جبکہ ہیپاٹائٹس بی کے ٹیکے مارکیٹ میں موجود ہیں اور ہر صحت مند شخص کو یہ ٹیکے ضرور لگانے چاہیے۔ حاملہ خواتین کو ہیپاٹائٹس بی اور سی کے لیے اپنا ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیے یہ مرض پیدائش کے دوران ماں سے بچے میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔پا ٹائٹس سی کا بغیر انجکشن علاج دریافت کر لیا گیا ہے۔
ہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں کے لئے اب انجکشن لگوائے بغیر اس مرض سے چھٹکارا ممکن ہے۔ امریکہ میں ایک ایسی دوائی ایجاد کر لی گئی ہے جس کے استعمال سے ہیپا ٹائٹس سی سے مکمل طور پرچھٹکارا پا یا جاسکتا ہے۔ ۔ امریکہ میں ایجاد اور مریضوں کے علاج کے لئے آزمودہ دواایک حیرت انگیز ایجاد ہے اور ہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں کے لئے امید کی کرن ہے۔اس دوا کے سائیڈ ایفیکٹ بہت کم ہیں مریض آسانی سے یہ دوا برداشت کر سکتا ہے۔ پاکستان میںہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد لاکھوںمیں ہے اور جو مریض پہلے علاج کرانے کے باوجود شفایاب نہیں ہوسکے اْن کے لئے یہ دوا استعمال پر کارگر ثابت ہوگی۔ اور ایسے مریض جن میں اس مرض سے پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں اور جن کے لئے پہلے سے کوئی علاج موجود نہیں یہ دوا اْن کے لئے بھی انتہائی مفید ہے۔ لیور ٹرانسپلانٹ کے مریض بھی یہ دوا استعمال کر سکتے ہیں۔ ۔اس دوا استعمال سے مریضوں کے علاج میں خاطر خواہ کامیابی ممکن ہے۔
جبکہ اس سے قبل انجکشن سے کئے جانے والے علاج کے بعد مرض دوبارہ ہوسکتا تھا۔ معاشرے میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کی وجوہات کے بارے میں ہر شخص کو شعور و آگہی بہت ضروری ہے اور اس کے لیے حکومت کے علاوہ معاشرے کے تمام مؤثر طبقوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اگر ہم صحت اور صفائی کا خیال رکھیں، حکومتی ادارے صاف ہوا، غذا اور پانی فراہم کرنے پر توجہ دیں، بیمار پڑنے سے پہلے ہی بیماری سے بچنے کی کوشش کی جائے تو بیماری سے صحت یابی کے لٰے خرچ ہونے والے لاکھوں، کروڑوں، اربوں روپے کی خطیر رقم کو ہم اپنے بچوں کی اچھی تعلیم، زیادہ بہتر معیار زندگی، زیادہ اچھی رہائش، زیادہ اچھے لباس اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں صرف کر سکتے ہیں۔
تحریر: سجاد علی شاکر فنانس سیکرٹری پنجاب (کالمسٹ کو نسل آف پاکستان)
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480