اسلام آباد: حکومت نے بھی مخالفت کیلئے حکمت عملی بنالی، نون لیگ اور اپوزیشن کے الگ الگ اجلاس بھی طلب کر لئے۔
اپوزیشن نا اہل شخص کے سیاسی پارٹی کا سربراہ بننے کے خلاف الیکشن بل 2017 کی شق 203 میں ترمیمی بل آج قومی اسمبلی میں پیش کرے گی، اپوزیشن لیڈرسید خورشیدشاہ نے پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج سہ پہر 3 بجے طلب کرلیا جس میں بل کی منظوری کے لئے حکمت عملی طے کی جائیگی جبکہ حکومت نے بھی بل کو مسترد کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کر لی، وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کی زیرصدارت مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی آج طلب کر لیا گیا جس میں نا اہل شخص کے پارٹی صدر بننے سے متعلق بل پرغور ہوگا۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سپیکر قومی اسمبلی سردارایاز صادق سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں اپوزیشن کا بل مسترد کرانے کیلئے اسمبلی میں ن لیگی ارکان کی حاضری یقینی بنانے کا ٹاسک دیا، سپیکر قومی اسمبلی نے ارکان کو آج ظہرانہ پر مدعو کرلیا، پارلیمانی پارٹی کا اجلاس اور ظہرانہ ایک وقت میں ہوں گے۔ سینیٹر آصف کرمانی نے بھی ارکان اسمبلی سے رابطہ کرکے ایوان میں آنے کا پیغام دیا، چیف وہیپ شیخ آفتاب احمد اور سپیکر آفس سے بھی حکومتی واتحادی ارکان کو اجلاس میں آنے کی درخواست کی گئی، ذرائع کے مطابق غیر حاضر ارکان کو پیشگی اطلاع اور ٹھوس وجوہات دینا ہوں گی، بغیر اطلاع غیر حاضر حکومتی ارکان کی بازپرس کی جائے گی، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لئے اپنے طور پر متحرک ہیں۔
حکمران اور متحدہ اپوزیشن نے صف بندی کرلی، ذرائع کے مطابق بل قائمہ کمیٹی میں بھجوانے کے بجائے ایوان سے منظور کرایا جائے گا جس کی منظوری کیلئے موجود ارکان کی سادہ اکثریت کی ضرورت ہوگی تاہم متحدہ اپوزیشن نے اپنے ارکان کی حاضری پوری رکھنے کیلئے حکمت عملی طے کر لی، پی پی پی، تحریک انصاف، ایم کیوایم سمیت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 119 کی حاضری کو یقینی بنانے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے، اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر کے چیمبر نے پی پی پی کے تمام ارکان کو ٹیلیفون پر رابطے کرکے ایوان میں حاضری کی ہدایت کردی جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں سے بھی کہا ہے کہ وہ بھی اپنے ارکان کی حاضری کو یقینی بنائیں، بل پر متفقہ حکمت عملی کیلئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے حزب اختلاف کی جماعتوں کا اجلاس بھی طلب کرلیا، بل کی منظوری کیلئے اپوزیشن کے پاس فاٹا، آزاد اور سیاسی جماعتوں کے 119ارکان ہیں، رائے شماری میں اپوزیشن وحکومتی جماعتوں کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین اہم کردار ادا کریں گی۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے حکومت سے ناراض سمجھے جانے والے حکومتی ارکان سے بیک ڈور رابطے کئے گئے ہیں تاہم ان رابطوں میں کس قدر کامیابی ہوئی اس کا اندازہ آج کے اجلاس کے بعد ہو گا، غیرجانبدار رائے رکھنے والے حکومتی ارکان سپریم کورٹ سے سزا کے بعد نوازشریف کے پارٹی صدر بننے پر اختلافی رائے رکھتے ہیں جس کا حکومت کو اچھی طرح اندازہ ہے ،وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ اس حوالے سے اپنی رائے کا کھل کر اظہار بھی کرچکے ہیں،پارٹی کے اندر پائی جانیوالی کیفیت کا حکومت کو اچھی طرح اندازہ ہے اور یہ صورتحال اس وقت پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ کر شام کو طلب کیا گیا ہے جبکہ عام حالات میں سوائے پیر کے باقی تمام اجلاس صبح کے اوقات میں ہوتے ہیں، ذرائع نے بتایاکہ اجلاس شام کو طلب کرنے کا مقصد حکومت کی جانب سے اپنے ارکان اسمبلی کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اجلاس میں شرکت اور بل کی مخالفت پر آمادہ کرنا ہے اور اس حوالے سے جامع حکمت عملی تیار کرنا ہے تاکہ نوازشریف کی پارٹی صدارت کو بچایا جاسکے۔