تحریر : ایس ایم عرفان طاہر
مرے ندیم مرے ہم سفر مرے محسن ! ترے فراق نے بخشا ہے ذوق دار و رسن
تمہا ری یا د میں پھولوں کے ہا ر مرجھا ئے اڑالیا ہے خزائوں نے آج رنگ چمن
موجودہ صدی کے محقق ، درویش ، قلم دان اور مفکر حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں اس زمیں پر ہو نے والا یہ سفر ، ہمارا پہلا سفر ہی در حقیقت ہمارا آخری سفر ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی فضائیں اداس ہیں جس میں بسنے وا لے ہمہ وقت آبدیدہ اور ہر نئی گھڑی کسی نئے دکھ اور مصیبت کو جنم دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے پرکھوں نے جس پودے کو اپنے خون پسینے سے تقویت بخشی نہ جا نے کیوں ہر لمحہ پستی و تنزلی کی جانب گا مزن دکھائی دیتا ہے یہا ں بد نما دھبوں اور بدکردار چہروں کے ساتھ ساتھ بہت سے خوبصورت ، دلفریب اور حسن تخلیق کلیاں ، کو نپلیں اور پھول دکھائی دیتے رہے ہیں
ایک ایسا ہی نایاب ، بے مثال اور لازوال پریوں نما چہرہ سرزمین لیل پو ر(فیصل آبا د ) میں 2 فروری 1995 کورونما ہوا جسے اللہ پاک نے بے پناہ صلاحیتوں اور رحمتوں سے نواز رکھا تھا بہت ہی دعائوں اور رب ذوالجلال کی خاص رحمتوں اور عنایتوں کے بعد ایسی دولت خالق اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے تقسیم بر صغیر کے بعد ما در ملت فاطمہ جنا ح اور چند ایک معتبر خواتین کے بعد یہ پاکستانی خواتین او ر بچیوں کے لیے ایک بہت بڑا سرمائیہ افتخار تھا کہ ارفع کریم جیسی ہونہا ر ، فرشتہ صفت اور بے پناہ صلاحیتوں اور اللہ پاک کی عنایا ت کا مظہر ہمیںحاصل ہوا موجوہ پاکستانی تاریخ میں خواتین کے حوالہ سے بہت سے خوبرو اور دلکش چہرے سیاسی ،مذہبی اور سماجی افق پر نمودار ہوتے رہے
جن میں شامل سرفہرست عاصمہ جہا نگیر ، سعیدہ وارثی ، شیری رحمن ، شرمیلہ فا رقی ، ناز بلوچ ، شا زیہ مری ، سمیرا ملک، کشمالہ طارق ، عائلہ ملک ، مریم نواز ، ما روی میمن ، حنا ربانی کھر اور دیگر مخصوص لمحات اور مخصوص اوقا ت میں نشیب و فراز کے ساتھ عروج و زوال کی حامل ٹھہریں لیکن بین الاقوامی سطح پر شہید بے نظیر بھٹو کے بعد مرحومہ ارفع کریم رندھاوا اور ملا لہ یوسفزئی کو جو پذیرائی ، بلندی ، شہرہ اور مقام ملا وہ کسی دوسری خاتون یا لڑکی کی قسمت میں نہ تھا ۔ بلا شبہ کسی مقام و مرتبہ پر براجمان ہونے اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے لیے اپنی مختصر زندگیوں میں کئی پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور شب و روز محنت و مشقت اور جذبہ و جنون کے بعد کوئی مرتبہ ملتا ہے لیکن خاص ہے وہ رب ذوالجلال جو اپنی عنایت اور رحمت کی بدولت کسی کو دنیا میں اور کسی کو دنیا سے گزر جا نے کے باوجود بھی اسکی معمولی یا غیر معمولی خدما ت کے عوض عظیم مقام و مرتبہ اور منصب عطا کردیتا ہے جو ہر ایک کو نہیں ملتا ہے۔! ارفع کریم کی ڈائری میں یہ ایک خوبصورت مصرع لکھا ہوا تھا اس زیاں خا نے میں تیرا امتحاں ہے زندگی ۔۔۔!
ارفع کریم وطن عزیز کی ان خاص الخاص شخصیا ت میں شامل تھیں جنہیںحسن کا رکردگی کا صدارتی ایوارڈ ملا ، سلام پاکستان سمیت گولڈ میڈل اور 2005 انہیں فاطمہ جنا ح گولڈ میڈل دیا گیا وہ دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ما ہر کا اعزاز رکھتی تھیں ما ئیکرو سافٹ کمپنی کے مالک اور دنیا کی امیر ترین شخصیت بل گیٹس نے دو مرتبہ ارفع کریم کو اپنے پاس امریکہ ما ئیکرو سافٹ ہیڈ کوارٹر میں مدعو کرکے ان سے خصوصی ملا قات کی جس شخص کا ایک ایک منٹ بھی انمول قیمت رکھتا ہے اس کا ارفع کریم کو عزت اور تکریم سے نوازنا کسی ایوارڈسے کم نہیں ہے ۔ارفع کریم اور ملا لہ یو سفزئی دو ایسی بچیا ں ہیں جو بڑوں کو بھی ما ت دے گئی جن کو خداداد صلاحیتوں سے نوازا گیا افسوس ان نام نہا د دانشوروں اور سکالروں پر جو خو د کو بے پناہ عقل و فہم اور حکمت و دانش کا پیکر کہتے ہو ئے بھی ان میں سے ایک جو دنیا فانی سے کوچ کر گئی اسے نت نئے القبات اور اعزازات سے نوازتے اور جس کو اللہ رب العزت نے وقار کے ساتھ ساتھ دوسری زندگی کی دولت سے نوازا اس پر تنقید کرتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں کمال ہے کہ ملا لہ کو ملا ئوںسے اور سی آئی اے اور نہ جا نے کن کن خفیہ اداروں کا ایجنٹ اور حصہ کہہ کر تذلیل و تو ہین کی جا تی ہے
میرا ان نام نہا د دانشوروں اور میکدوں میں بیٹھ کر عقل و فہم و فراست کے ترانے گا نے والوں سے ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ کیا مو ت ہی ہما رے ملک میں ہر انسان کا بڑا پن یا برتری اور عزت و تکریم ظا ہر کرتی ہے کیا مرنے کے بعد ہی ہر انسان ہما رے معا شرے میں معتبر اور مقرب جانا جا تا ہے ؟زندگی جیسی نعمت کو کیوں رد کیا جاتا ہے ؟ کیا ہما رے ملک میں بڑا پن ظا ہر کرنے اور پیکر شہرت اور عظمت بننے کے لیے شہادت اور موت ہی لازم ہے؟ جو انسان اپنی زندگی میں اپنی پذیرائی یا اچھا ئی کا چرچا نہ دیکھ سکے تو مرنے کے بعد اس کے اندر ایک حسرت تو لازمی رہ جا تی ہے ہما رے ہا ں معیا ر عزت و عظمت و شہرت اور مقام و مرتبہ شہا دت یا مو ت کو کیوں قرار دے دیا گیا ہے ؟
زندگی کی قدر کیوں نہیں کی جا تی زندہ رہنے والے امر کیو ں نہیں تسلیم کیے جا تے ان کی آئو بھگت کیوں نہیں ہو تی ہر شخص کے احترام کے لیے اس کی مو ت کا انتظا ر کرنا لا زم ہے ؟ اگر دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کے حملہ میں آج ملالہ بھی شہید ہو جا تی اور ارفع کریم کی طرح اپنے خالق حقیقی کو جا ملتی تو بلا شبہ ہما رے ملک میں بھی اس کی قربانی کا چرچا ضرور ہو تا اور اسے بھی اچھا جانا اور مانا جا تا اعتزازحسن کی طرح اس کو بھی سب قدر کی نگا ہ سے دیکھتے اور اس کے ترانے گا ئے جا تے اس کی یا د میں بھی محا فل اور تقاریب کا انعقاد کیا جاتا افسوس ایسا کچھ نہ ہوا خالق و مالک جس کے قبضہ قدرت میں ہم سب کی جان ہے نے ارفع کریم کو اپنے پاس بلا کر ملالہ یوسفزئی کو اس کی جگہ براجمان کردیا اور اس کی کمی پو ری دنیا میں ملالہ یوسفزئی نے کردی
لیکن یہ با ت چند مفاد پرستوں اور جھوٹی شہرت اور حیثیت رکھنے والوں کو ذرا نہ بھا ئی اور انہو ں نے تنقید برائے تنقید اور بغیر جا نچے اور بغیر تحقیق کیے ملالہ کی برائیوں کا پہاڑ کھڑا کردیا وہ قوم جسے میں ایک ہجوم سے تعبیر کرتا ہوں اس کی لا شعوری اور بے علمی سے فائدہ اٹھا تے ہو ئے مزید کہا نیا ں اور داستانیں لکھی جا تی رہیں جس سے کوئی فائدہ کسی ایک فرد کو ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن پو ری دنیا میں ایک منفی پیغام مسلسل جاتا رہا مجھے یہ با ت کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو تی کہ ملالہ یوسفزئی کو اب نا اہل اور زندگی میں ناکام ترین لوگوں کی طرف سے کسی پذیرائی یا نیک نامی کی ضروت نہیں اللہ پاک نے اسے ان تمام باتوں سے مبراء کردیا ہے ارفع کریم نے ٩ برس کی عمر میں ما ئیکروسافٹ وئیر انجنئیر کا سر ٹیفکیٹ حاصل کیا محض 16 برس کی عمر میں 22 دسمبر کو اچانک گھر میں دورہ پڑنے سے وہ زمین پر جا گریں اسی دوران ہا رٹ اٹیک کے باعث وہ قومہ میں چلی گئیں
26 روز اسی حالت میں رہیں پو ری دنیا میں ان کی صحت و تندرستی کے لیے دعائیں ہو تی رہیں اور ان کے نام پر صدقات و خیرات دی گئیں مصنوعی سانس کے زریعہ سے خالق نے انہیں چند لمحات زندگی کے عطا کیے امریکہ کے ما ہر ڈاکٹرز کا ایک پینل بھی ان کے علاج معالجہ کے لیے با قا عدہ تشکیل دے دیا گیا لیکن تمام تدابیر اور احتیا طیں رائیگاں چلی گئیں اور خالق نے اپنی برگزیدہ اور عظیم بندی کو اپنے قرب میں بلا لیا ان کی نما ز جنا زہ صبح 10 بجے کیولری گرائو نڈ لا ہو ر کینٹ میں ادا کی گئی ۔ اس قیمتی موت پر اس وقت کے صدر آصف علی زرداری ، وزیراعظم یوسف رضا گیلا نی ، صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) میا ں محمد نوازشریف ، وز یر اعلیٰ پنجاب میا ں شہبا ز شریف ، سربراہ پاکستان تحریک انصا ف عمران خان ، وفا قی وزیر داخلہ رحمن ملک ، وفا قی وزیر اطلا عات و نشریات فردوس عاشق اعوان ، چیف جسٹس افتخا ر چو ہدری اور دیگرز اہم شخصیا ت نے محض ان کے لیے رنج و غم کا اظہا ر کیا اور کوئی بھی منصب والا یا مقام و مرتبے والا ان کی زندگی لوٹا نہ سکا پاکستان کی ایک ہونہا ر اور با صلاحیت بیٹی منوں مٹی تلے دفنا دی گئی
لیکن جس کو قدرت نے زندگی کی روشنی اور نو ر سے نوازا ہے جس کی صلاحیتوں اور کا وشوں کو اقوام متحدہ سمیت تمام سماجی و سیاسی خدما ت کے اداروں نے تسلیم کیا ہے اسے آج اس کی زندگی میں اگر کوئی انعام و اکرام سے نہیں نوازا جا سکتا تو برائے مہربانی تنقید برائے تنقید کی رسم اپنا تے ہو ئے ازیت نہ پہنچائی جا ئے موت اور زندگی تو اللہ رب العزت کی با دشا ہت میں ہے وہ جسے چاہے اس کی سانسیں بڑھا دے اور جسے چا ہے تو مو ت کی وادی میں سلا دے ہم اور آپ کون ہو تے ہیں اس کی سلطنت میں دخل اندازی کرنے والے ذرا سوچئیے ! ارفع کریم اور ملا لہ یوسفزئی جیسی بے مثال شخصیا ت ہر روز پیدا نہیں ہو تیں اور نہ ہی یہ مقام و مرتبہ کوئی انسان خود چاہ کر بھی حاصل کرسکتا ہے یہ تو اوپر وا لے کی دین ہے
وہ جسے چا ہے نواز دے اس کے سامنے تو سب برابر ہیں وہ تو کل کائنا ت کا خا لق و مالک ہے پشا ور خود کش حملے میں جام شہا دت نو ش کرنے وا لے بچوں کی طرح ہی ملالہ کو 2012 کوتحریک طا لبان پاکستان کے بزدل اور بدکردار انتہا پسندوں اور دہشتگردوں نے اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا تھا یہ کوئی کہانی یا ڈرامہ نہیں تھا اگر کسی کو کوئی عملی نمو نہ ہی چا ہیے تو وہ خو د پر تین گولیاں چلوا کر دیکھ لے یا پشا ور آرمی سکول کے بچوں کی مو ت کو دیکھنے وا لے عینی شا ہدین سے پوچھ پرستش کی کوشش کریں اسکے بعد یقین محکم ہو جا ئے گا کہ زندگی اور مو ت کی کشمکش سے گزرنا کس قدر مشکل ہے اللہ رب العزت ہر بچی کو ان دو پریوں کی پیروی کرنے اور ان جیسا مقدر عطا فرما ئے آمین
پھر نگا ہو ں کو پیا س ہے آجا پھر مرا جی اداس ہے آجا
تو حقیقت ہے یا فسا نہ ہے وہم ہے یا قیاس ہے آجا
سن رہا ہو ں میں آہٹیں تیری تو کہیں آس پاس ہے آجا