تحریر:ابنِ نیاز
ہسپتال ہے، دوائی نہیں۔ گند ہے، صفائی نہیں۔ پانی ہے، نالے کی کٹائی نہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے بلند بانگ دعوے کیے، لیکن افسوس، انتہائی افسوس کہ سارے دعوے پشاور تک ہی محدود ہو کر رہ گئے۔ یا پھر صرف ان شہروں میں جہاں اکثریتی ووٹ ان کو ملے تھے۔ مانسہرہ سے نو ن لیگ کے امید وار منتخب ہوئے تھے، انھوں نے بھی اسلام آباد میں ڈیرہ ڈال لیا۔ جو ایم پی اے ہیں، وہ شاید ہفتہ اتوار کو اپنے گھروں کے چکر لگاتے ہوں، لیکن ا ن کے حلقے میں انکے گھر کے علاوہ بھی کچھ علاقے آتے ہیں، یہ ان کی یاداشت سے عرصہ پانچ سال کے لیے محو ہو چکا ہے۔
اس لیے کہ اب ہم ان کے لیے شودر ہو چکے ہیں۔ وہ بڑی گاڑیوں میں، فل پروٹوکول کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لازمی نہیں کہ پروٹوکول میں گاڑیاں بھی شامل ہوں، لیکن ان کے ارد گرد مکھن فروش افراد کا ایک جمگھٹا لگا رہتا ہے تو ہم جیسے عام سادہ لوح لوگ اس مکھن کی وجہ سے پہلے سے ہی پھسل کر نیچے گر پڑتے ہیں۔ جس طرح کی گاڑیوں میں وہ سفر کرتے ہیں ان میں دھچکے تو لگتے نہیں۔ تو ان کو کیسے علم ہو گا کہ گڑھی روڈ سے جاتے ہوئے ناظم کے دفترتک کیسے کیسے دھچکے لگتے ہیں۔
وہ مانسہرہ کی ڈسٹرکٹ ہسپتال سے علاج کروائیں تو پتہ چلے کہ جب ایک وقت میں ایمرجنسی میں پچاس مریض کھڑے ہوں، اور ایک یا دو ڈاکٹر ہوں تو مریضوں پر کیا گزرتی ہے۔پچاس مریضوں میں سے اگر بہت کم بھی ہوئے تو بیس کے قریب واقعی میں ایمرجنسی والے ہوں گے۔ ایمرجنسی کا مطلب ایکسیڈنٹ میں ہی زخمی ہو کر آنا نہیں ہوتا۔ کسی درد کی حالت میں بھی ایمرجنسی ہو سکتی ہے۔ جس کو وہ برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہو جائے۔لیکن ہمارے اس اکلوتے ہسپتال میں اوپی ڈی کے دوران ایک سیکشن میں دو یا تین ڈاکٹر ہوتے ہیں وہ بھی مریض کو ایک منٹ سے کم وقت میں چیک کرکے فارغ کر دیتے ہیں۔ ساتھ میں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور مریض بھی چیک ہو رہا ہوتا ہے۔ تو کیاخاک چیک ہو گا؟ کبھی بھی مریض کو تفصیل سے نہیں چیک کیا۔ اگر کوئی مریض بتاتا ہے کہ اس کو بخار ہے تو ڈاکٹر نے ہمیشہ اس کو بخار کی دوائی دی۔ کبھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچے کہ بخار کی وجہ کیا ہے؟ ہاضمہ خراب ہے، گلہ خراب ہے، الرجی ہے یا کوئی اور وجہ؟ اگر مریض تھوڑا سا اصرار کر بیٹھے تو اس کو ٹیسٹ لکھ دیا جاتا ہے۔
ٹیسٹ کی بات آئی تو ہسپتال کی لیبارٹی میں گنے چنے شاید دس سے پندرہ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ یا بیس کہہ دیں۔ ایک ضلع کی ہسپتال ہو، اور کافی بڑی ہسپتال ہو۔ اس میں ٹیسٹ کی یہ صورت حال ہو۔ بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو ہسپتال کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کرواتے ہوں گے۔ کیونکہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی میں لیب میں ڈاکٹر تو کوئی نہیں البتہ جو اٹینڈنٹ موجود ہوتا ہے وہ ایک ٹیسٹ لگا کر اگلے مریض کے لیے آدھ گھنٹے کا انتظار لگا دیتا ہے۔یوں آٹھ گھنٹے میں صرف خون کے زیادہ سے زیادہ سولہ سے بیس ٹیسٹ ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اور ٹیسٹس کی بھی صورتحال ہوتی ہے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ ہسپتال میں کیے گئے ٹیسٹ اب تک تو سارے نتائج بہت اچھے آتے تھے، کافی دنوں سے جانا نہیں ہوا، تو اب کا اپ ڈیٹ علم نہیں۔
پھر مریض ٹیسٹ کا یہ نتیجہ لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس پھر ایک لمبی قطار لگی ہوتی ہے۔ وہی مریض جس نے پہلے ایک گھنٹہ انتظار کرکے اپنا چیک اپ کروایا تھا، اب بھی اس کو دوبارہ ٹیسٹ چیک کروانے میں اور نسخہ لکھوانے میں آدھا گھنٹہ تو لگ ہی جاتا ہے۔ اور ڈاکٹر دوائی بھی وہ لکھتا ہے جو دو تین دن پہلے کوئی نہ کوئی فارماسیوٹیکل کمپنی کا نمائندہ بتا کر گیا ہوتا ہے، اس وعدے کے ساتھ کہ اگر ڈاکٹر صرف تین عدد کاٹن بھی بکوادے گا تو ایک عدد چھوٹی مہران گاڑی اگلے دن اس ڈاکٹر کے گھر کے باہر کھڑی ہو گی۔ لازمی نہیں کہ مہران گاڑی ہی ہو، اور بھی کئی مراعات ہو سکتی ہیں۔ اب معدے کی ایک دوائی ہے میپرا زول۔ مختلف ناموں سے مختلف قیمت لگی مختلف کمپنیوں کی پیکنگ میں آتی ہے۔ایک کمپنی کی چودہ ٹیبلٹس یا کیپسول کی پیکنگ ایک سو چالیس روپے تو دوسری کمپنی کی وہی دوائی پانچ سو روپے کی۔ ڈاکٹر کبھی بھی مریض کی معاشی حالت پر غور نہیں کرتا۔ اور پانچ سو روپے والی دوائی لکھ کر دے دے گا۔
بے چارے مریض کو کیا علم کہ اسی فارمولے کی دوسری دوائی بھی میسر ہے۔ سونے پہ سہاگہ، ہمارے کیمسٹ دکاندار حضرات بھی کبھی مریض کی طرف داری نہیں کرتے۔ کبھی مریض کو نہیں کہتے کہ پانچ سوالی دوائی کی جگہ ایک سو چالیس روپے والی دوائی کا بھی وہی اثر ہے۔ لیکن ایک سو چالیس میں کیمسٹ کو بیس روپے بچتے ہیں تو پانچ سو والی میں سو روپے۔ وہ کیوں ایک سو چالیس والی دوائی دے گا۔ میرا ایک کزن کچھ عرصہ پہلے ڈرگز کنٹرول ایڈمنسٹریشن کے ادارے میں جاب کرتا تھا۔ اسکا کہنا ہے کہ ڈرگز والے ہمیں خود بتاتے کہ پاکستان میں چونکہ اکثر دوائیں امپورٹ ہوتی ہیں تو امپورٹ شدہ دوائی کی قیمت در حقیقت فروخت کردہ قیمت سے پانچ سو سے آٹھ سو گناہ تک کم ہوتی ہے۔
بے شک آپ اس میں پیکنگ کی قیمت لگالیں، دو تین بار کا کرایہ لگا لیں، کمپنی کے نمائندہ کی تنخواہ فی کیپسول لگا لیں، لیکن پھر بھی اصل قیمت بہت ہی زیادہ کم ہوتی ہے۔ اس نے مثال دی ایک دوائی کی (نام مجھے یاد نہیں رہا)۔اس نے کہا کہ دس کیپسولوں میں جتنا مواد ہوتا ہے اس کی کل درآمدی قیمت بیس روپے بنتی ہے۔ دکاندار تک پہنچے تک جس میں مختلف اخراجات شامل کر لیں، مزدور کی مزدوری، بجلی گیس پانی کا بل، فیکٹری کا کرایہ، مالک کی آمدنی، اور دیگر متفرق اخراجات ، تب بھی اس دس کیپسول والی ڈبی کی حد قیمت ساٹھ روپے سے زیادہ نہیں جاتی۔ لیکن جب دکاندار آپ کووہ ڈبی دیتا ہے تو ڈبی پر قیمت تین سو ساٹھ روپے لکھی ہوتی ہے۔اب بتائیں کہ ساٹھ روپے کی ڈبی کی قیمت جب تین سو ساٹھ روپے ہو گی تو ڈاکٹر کا حصہ بھی تو لازمی ہو گا۔
کیا اس شہر مانسہرہ کے عوامی نمائندے (دس فیصد عوام کے ) یہ حق نہیں رکھتے کہ مریضوں کو اس نازک صورتحال سے بچائیں۔ ہسپتال کی صورتحال کو باقاعدہ اس طرح منظم کریں کہ ڈاکٹر وں کی بھی ایک اچھی تعداد موجود ہو۔ مریضوں کو باقاعدہ تسلی سے چیک کرے۔ہسپتال میں ہر سہولت میسر ہو۔ یقین کریں کہ مریضوں کے لیے جو بستر موجود ہیں ان کی صورت حال سے کون واقف نہیں۔ ہاں نہیں واقف تو یہ نمائندے اس وقت واقف نہیں۔ کیونکہ ان کو یہاں کبھی علاج جو نہیں کروانا ہوتا۔ وہ تو کم سے کم اسلام آباد کی ہسپتالوں میں علاج کروانے جاتے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ ایم این اے یا ایم پی نہ ہوتے ہوئے بھی باہر کی سیر کرنے جاتے ہیں اور علاج امریکہ کے ہسپتال میں کرواتے ہیں۔ کیونکہ اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں پاکستان کے کسی بھی ہسپتال کو اس قابل نہیں بنایا کہ یہاںپر اپنا فشارِخون ہی چیک کروا سکیں۔بستروں کی صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ وہ رسیوں سے بندھے ہوتے ہیں۔
اگر اتفاق سے مریض کے ساتھ بستر پر کوئی تیماردار لمحہ بھر کو اٹک جائے تو مریض اور تیماردار نیچے اور بستر ان کے اوپر ہوتا ہے۔ صفائی کا انتظام انتہائی اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے۔ بے شک قصور عوام کا ہوتا ہے کہ وہ بنا یہ دیکھے کہ ہسپتال میں کھڑے ہیں ، جھٹ سے منہ سے نسوار نکالی اور ایک کونے کا نشانہ لیتے ہوئے پھینک دی۔ پھر چلتے چلتے ایک دیوار پر دو تین بار تھوک دیا۔ واش رومز کی حالت تو ایسی ہے کہ بندہ جائے تو کدھر جائے۔ پہلے تو ناک منہ کو اچھی طرح ڈھانپ کر گھسا جاتا ہے اور ساتھ میں پھر واش روم میں پائوں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ دنوں تو کیا، ہفتوں ہفتوں صفائی والا واش روم کا چکر نہیں لگاتا۔ ٹوٹے ہوئے سینک میں پانی نہیں آتا۔ جتنا قصور عوام کا ہے، اتنا ہی قصور صفائی کا ہے۔ اگر ہسپتال کو پہلے دن سے ہی وہ ستھرا رکھتے، کسی اچھے ہسپتال کی طرح ہر وقت ایک جگہ پر تین چار صفائی والے موجود ہوں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی گند کرے۔کیونکہ انہیں پھر یہ احساس لازمی ہو گا کہ اگر گندہ کیا تو خود کی یا ساتھ موجود مریض کی بیماری میں اضافہ ہی ہو گا۔
سرکاری ہسپتال ہے، کوئی بھنگڑ خانہ نہیں۔ پیار سے ہر کام نکالا جا سکتا ہے۔ اگر اساتذہ کا ریفرشر کورس کروایا جا سکتا ہے تو ہسپتال میں ڈاکٹرز سمیت دیگر ملازمین کی اچھی تعداد تعینات کرکے ان کو سکھایا جا سکتا ہے کہ ہر مریض کو، تیمار دار کو اچھی طرح سمجھائیں کہ ان کا فائدہ کیا ہے؟ ایک مریض کے ساتھ دو سے زیادہ تیماردار نہ ہوں۔ ایک باہر جو دوائی وغیرہ لا سکے (اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کا اعلان تھا کہ ہسپتالوں میں مفت دوائی فراہم کی جائے گی۔ لیکن سوائے درد کے ایک دو انجکشنز کے کچھ بھی نہیں ملتا ، یا مشکل سے ایک دو اور انجکشنز ملتے ہوں۔ دوائی تو ہر گز نہیں دستیاب) ، دوسرا مریض کے ساتھ اندر۔ تاکہ بوقتِ ضرورت ڈاکٹر تک کوئی لیبارٹری ٹیسٹ کروانا ہو ، ساتھ رہ سکے۔آج تک شاید ہی محکمہ صحت کے کسی نمائندہ نے ہسپتال کا چکر لگایا ہو۔ اگر لگایا بھی ہو گا تو چائے پی، سموسے کھائے اور چل دیے۔ مریضوں سے یا تیمارداروں سے یقینا پوچھا ہو گا کہ کیا صورتحال ہے، بہتری لانے کا وعدہ کرکے چل دیے۔ اور ابھی تک چل رہے ہیں۔
عوام الناس بھی تو قصور وار ہیں۔ جب ان کو سہولیات نہیں ملتیں تو ان کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ کم وسائل کو وہ صرف اپنی جاگیر سمجھ کر استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا دین بہت پیارا دین ہے۔ وہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے جیو۔ اللہ پاک آپ کی زندگی میں خیرو عافیت والی برکت ڈالے گا۔ آپ اگر کسی کی مدد اپنی مشکل وقت میں کریں گے تو اللہ پاک یقینا آپ کی مدد اس وقت کرے گا جب آپ کو یہ یقین ہو گا کہ اب آپ کا مدد گار کوئی نہیں، یہاں تک کوئی کوئی رشتہ دار، دوست احباب بھی نہیں۔ جب تحمل کا مادہ پیدا کرتے ہوئے آپ دوسروں کو ترجیح دیں گے تو یقین رکھیں کہ اللہ پاک آپ کے لیے وہ وسیلہ پیدا فرمائے گا کہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔ شرط صرف اتنی سی ہے کہ اللہ پر یقین کامل رکھیں۔
تحریر:ابنِ نیاز