ضلع سیالکوٹ کے حلقے این اے 72 (سابقہ این اے 111) کا شمار ملک کے اُن چند حلقوں میں ہوتا ہے جہاں آئندہ انتخابات کے دوران پاکستان مسلم لیگ نون اور تحریکِ انصاف کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ اس حلقے میں گجر اور اعوان برادری کی اکژیت ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ماضی میں یہاں گجر برادری سے تعلق رکھنے والے خاندان ہی برسرِ اقتدار رہے ہیں۔آئندہ انتخابات کے لیے بھی نون لیگ نے گجر برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے سابق ایم این اے چوہدری ارمغان سبحانی کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ تحریکِ انصاف نے ایک مضبوط پینل بناتے ہوئے اعوان برادری سے تعلق رکھنے والی پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو میدان میں اُتارا ہے۔سیاسی پنڈتوں کے مطابق یہ مقابلہ انتہائی دلچسپ ہوگا کیونکہ چوہدری ارمغان سبحانی اس حلقے میں اپنا مضبوط ووٹ بینک رکھتے ہیں جبکہ ڈاکٹر فردوس عاشق نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اقتدار سے باہر رہ کر بھی حلقے کے عوام کے ساتھ رابطے بحال رکھے ہیں جس کا انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔آئندہ انتخابات میں ان کے ذاتی ووٹ بینک کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریکِ انصاف کا ووٹ بینک بھی ان کے لئے آکسیجن کا کردار ادا کرے گا جس کے باعث نون لیگ کے اُمیدوار کے لیے جیت مشکل ہو جائے گی۔
ماضی کے نتائج پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حلقے سے 1988ء سے 2002ء تک ہونے والے پانچ انتخابات میں گجر برادری سے تعلق رکھنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے مسلسل پانچ بار کامیاب ہوئے۔مشرف دور میں مسلم لیگ ق کی پالیسیوں پر عوامی ردِ عمل کے طور پر 2008ء کے انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان پہلی بار لگ بھگ 80 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ انھوں نے ناقابلِ شکست تسلیم کیے جانے والے چوہدری اُمیر کو شکست دے دوچار کیا تھا۔اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں فردوس عاشق وفاقی وزیرِ اطلاعات رہیں۔ وزارت کے ساتھ ساتھ وہ باقاعدہ اپنے حلقے سے بھی منسلک رہیں اور بہت زیادہ ترقیاتی کام کروائے۔ان منصوبوں میں سیالکوٹ میں پاسپورٹ آفس کا قیام، نادرا آفس کا قیام، سڑکوں کی تعمیر اور سیالکوٹ پریس کلب کی بحالی قابلِ ذکر ہیں۔ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے عوام میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔سابق ایم این اے چوہدری امیر حسین کی طرح فردوس عاشق بھی اپنے دورِ اقتدار میں خبروں کی زینت رہیں اور انھوں نے اس حلقے میں پیپلز پارٹی کو زندہ رکھنے میں بھی بھر پور کرادر ادا کیا لیکن پیپلز پارٹی کی ساکھ خراب ہونے کے باعث وہ 2013ء کے انتخابات میں ارمغان سبحانی کے مقابلے میں لگ بھگ 85 ہزار ووٹوں کے واضح فرق سے ہار گئیں۔نون لیگ کے ارمغان سبحانی کے والد چوہدری عبدالستار این اے 88 سے دو مرتبہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں جبکہ ان کے چچا چوہدری اختر علی بھی پنجاب اسمبلی کے ممبر رہے ہیں۔چوہدری عبدالستار نے بھی اپنے حلقے میں بہت زیادہ ترقیاتی کام کروائے ہیں جس کے باعث لوگ اس خاندان کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔آئندہ انتخاب میں ایک طرف جہاں فردوس عاشق اعوان کو جیت کے لیے بھرپور محنت کرنا پڑے گی تو دوسری طرف چوہدری ارمغان کے لیے بھی 2013ء کی طرح یہ الیکشن آسان نہیں ہوگا۔