اسلام آباد (ویب ڈیسک) توہین رسالت کیس میں بری ہونے والی آسیہ بی بی بیرون ملک چلی گئی، ذرائع کے مطابق توہین رسالت کیس میں بری ہونے والی آسیہ بی بی پاکستان سے باہر چلی گئی، آسیہ بی بی آزاد شہری ہے، وہ اپنی مرضی سے ملک چھوڑ گئی۔ اس سے قبل بھی آسیہ بی بی کے بیرون ملک روانگنی کی خبریں زیرگردش رہیں تھیں جس پر ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرفیصل نے آسیہ بی بی کی بیرون ملک روانگی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں ہی موجود ہے۔ آسیہ مسیح پر الزام تھا کہ اس نے جون 2009 میں ایک خاتون سے جھگڑے کے دوران حضرت محمد ﷺ کی شان میں توہین آمیزجملے استعمال کیے تھے۔واضح رہے آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزام میں 2010 میں لاہور کی ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے بھی آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کر دی تھی جس کے بعد ملزمہ نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تھی۔ گزشتہ ماہ 31 اکتوبرکو سپریم کورٹ نے سزا کالعدم قراردے کرآسیہ بی بی کورہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ توہین مذہب کے مقدمے سے بری ہونے والی آسیہ مسیح پاکستان چھوڑ گئی ہیں۔ دفتر خارجہ کے ذرائع نے آسیہ بی بی کی پاکستان سے بیرون ملک روانگی کی تصدیق کردی ہے۔دفتر خارجہ کے ذرائع نے ہم نیوز کو بتایا ہے کہ آسیہ بی بی اس وقت پاکستان میں نہیں ہیں۔توہین مذہب کے مقدمے سے بری ہونے والی آسیہ بی بی کو زندگی کے حوالے سے خطرات لاحق تھے ۔ ابتدائی معلومات کے مطابق آسیہ بی بی پاکستان سے کینیڈا روانہ ہوئی ہیں ۔یاد رہے 31 اکتوبر 2018کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت پانے والی آسیہ مسیح کو بری کردیا تھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 8 اکتوبر کومحفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل بھی شامل تھے۔آسیہ مسیح نے سزائے موت کے خلاف 2015 میں عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی جس کا فیصلہ سنایا گیا۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اگر آسیہ بی بی کے خلاف کوئی اور کیس نہیں ہے تو انہیں فوری رہا کردیا جائے۔عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کا2014 میں سنایا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے فیصلہ محفوظ کرتے وقت حکم جاری کیا تھا کہ کیس کا فیصلہ آنے تک کسی ٹی وی چینل پراس کیس سے متعلق کوئی بحث نہیں کی جائے گی۔واضح رہے سپریم کورٹ نے رواں سال 29جنوری کو آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی تھی۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہرعالم میاں خیل بھی بینچ کا حصہ تھے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ درخواست گزار فیصلے میں غلطی ثابت نہیں کر سکے ہیں، گواہ اصل حقائق سے لاعلم تھے اور عدالت میں غلط بیانی سے کام لیا۔ سب گواہان کے بیانات میں تضاد موجود ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سارا پاکستان ہلا کر رکھ دیتے ہیں کہ ہماری بات نہیں مانی اور الزام لگاتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں کہ بری کردیا۔ اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے۔آسیہ بی بی کی رہائی کی فیصلے کے خلاف مدعی قاری عبدالسلام نے نظر ثانی اپیل دائر کی تھی۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں آسیہ بی بی کو معصوم اور بے گناہ قرار دیا جب کہ فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو نو سال بعد ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں جون 2009 کو ایک واقع پیش آیا جس میں کھیت کے دوران کام کرتے ہوئے دو مسلمان خواتین نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا تھا۔