counter easy hit

طلاق کی کثرت کیوں

Divorce

Divorce

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری
اسلامی ملکوں میں طلاق کی کثرت کا مرض معاشرے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔اس سرطان جیسے مرض کو فروغ ملنے کا بنیادی سبب اسلامی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ اور نبی مکرمۖ کی منشاء و مرضی سے ناواقفیت یا ارادتاًروگردانی اختیار کرناہے ، انسانیت پر لازم ہے کہ رشتے کے بندھن سے منسلک ہونے سے قبل اس کی نزاکت و نفاست سے واقفیت ضرور حاصل کرلیں۔جب کہ یہاں معاملہ مختلف ہے کہ مسلم سوسائٹی میں عورتوں کی جائز آزادی کو سلب کیاجاتاہے ہے ،اسی کا بدیہی نتیجہ ہے کہ والد بیٹی پر جبراً و قہراً اپنا فیصلہ مسلط کر دیتا ہے،اس کو اس امر سے کوئی سروکار نہیں کہ اس سربریت کی شادی یا بندھن کا منطقی ثمر کیساغلط یاغیر متوقع نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے،احتمال ہے کہ یہ رشتہ پایہ تکمیل تک پہنچے یا بیچ دوراہے میں ہی یہ اہم و نازک رشتہ ٹوٹ جائے۔ لڑکی کی ماں خاوند کے غیض و غضب سے نجات پانے کے لئے اور خوف و حزن کی کیفیت میں بیٹی کو تاکید کرتی ہے کہ اس طے شدہ امر پر صبر کے دامن کو تھامے رکھے۔

ماں اور باپ کے اس طرح کے رویے کے نتیجہ میں ہونے والے رشتے میں بہت سی مشکلات پیداہوجاتی ہیں اور جس کا اختتام طلاق اور لڑکالڑکی میں جدائی پر ختم ہوجاتاہے اور لڑکی کی اولاد کے ہونے یا نہ ہونے دونوں صورتوں میں عزت و عظمت اور توقیر حیات ملیامیٹ ہوجاتی ہے۔کھلی بات ہے کہ اس طرح کے ظلم و جبر اور طاقت کے زور پر رشتہ قائم کرنے والوں کی عقل و فہم میں جرائم ومنکرات کی عادات رچ بس چکی ہیں کیوں کہ انجام بد سے قصداً چشم پوشی کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم جانتے اور پہچانتے ہیںکہ کوئی رشتہ ظلم و جور کی بناپر جوڑا گیا تو امرمستلزم ہے کہ اس میں دراڑ پڑ جائے یاوہ مقدس رشتہ تہ تیغ ہوجائے،لیکن اگر کوئی نکاح اسلامی شریعت کو مدنظر رکھ کر لڑکا اور لڑکی کی باہمی رضامندی سے پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے تو اس میں پیداہونے والی اساسی مشکل مادی و مالی ہوتی ہے جس کے سبب گھر یلوں جھگڑے کی صورت میں ظاہر ہوتے رہتے ہیںاور اسلام نے میاں بیوی کے مابین تعلق کے قیام کے بعد ازدواجی زندگی کی ہمہ جہت پیداہونے والی مشکلات ِ مالی و مادی کو حل کرنے کاآسان حل تجویز کیا ہے،اور وہ یہ ہے کہ خاوند پر فرض کردیا گیا ہے

وہ بیوی بچوں پر ہمہ جہت ضروریات کی تکمیل کے لے ان پر خرچ کرے یعنی نان نفقہ مرد پر لازم کیا گیاہے کہ وہ محنت کی کمائی سے خرچہ فراہم کرے گا،یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خاوند کو پابند کیا ہے کہ وہ بیوی کو حق مہر اداکرے،مردوں کی ظرافت طبیعی کا تقاضہ ہے کہ شوہر گھر کے معاملات کو چلانے کے لئے بیوی کوبازور ِ طاقت شریک کارنہیں کرسکتااگر وہ خود شوہر کی معاون بننا چاہے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں،لیکن اگر کوئی مرد یہ خواہش رکھے یا اس پر مجبور کرے اپنی بیویوں کو مجبور کرے کہ وہ ان کی معاونت کریں گھریلوں معاملات میں تو یہ مردانگی کی صفت و روح کے مخالف امرہوگا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب ازدواجی تعلق باہمی رضامندی سے قائم ہوگیا اور پھر اس میں ہلکی پھلکی مشکل پیش آتی رہتی ہے تو یہ مقام تعجب و حیرت نہیں کیوں کہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا انسانی معاشرے میں رونما ہونا معمول کی بات ہے

چونکہ اختلاف مزاج انسانی طبیعت کا حصہ ہے یہاں تک نبی کریم ۖ کے گھر میں بھی اختلاف رائے پیدا ہوا تھا جسے قرآن میں ذکر کردیا گیاہے،ہاں البتہ بات یہ ہے کہ اس طرح کے امور پر صبر و تحمل کا دامن نہ چھوٹنے نہ پائے۔اگر معمولی مشکلات اور اختلافات سے بات آگئے بڑھ جائے تو لازم ہے کہ میا ں بیوی میں صلح و صفائی کرانے کے لئے دونوں خاندانوں میں اہل حل و عقد کو اپنا ناصحانہ اور ہمدردانہ کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ میاں بیوی کا مقدس رشتہ ٹوٹنے نہ پائے،اور اگر مسئلہ اس سے بھی حل نہ ہوسکے تو آخری صورت میں طلاق کا فیصلہ کیا جائے گا (واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ حلال امور میں سے جن کو ناپسند کرتے ہیں ان میںعمل طلاق بھی ہے)

لیکن اس کے ساتھ اسلام نے تاکید کی ہے کہ جب بات صلح و صفائی سے حل نہ ہوپائے تو لازم ہے کہ ان دونوں میں جدائی کرادی جائے لیکن اس میں معروف طریقہ اختیارکیاجائے ،اور دونوں کا مقام و مرتبہ اپنے اپنے مقام پر مسلم و متحقق اور ثابت ہے اس جدائی کے نتیجہ میں نہ تو عداوت و دشمنی پیداہونی چاہیے اور نہ ہی جدائی کے بعد ایک دوسرے کے حقوق کو ضبط کرنے کی کوشش کی جائے۔

Doctor Khalid Fawad

Doctor Khalid Fawad

تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری