لاہور (ویب ڈیسک) وزیر اعظم عمران خان نے اپنے وعدے کے مطابق حکومت کی سو دن کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کردی جو یقیناً بڑے دل گردے کا کام ہے، خود اعتمادی اور خود احتسابی کے اس نادر اقدام پہ انہیں بہت سخت سست بھی سننا پڑیں ، یہاں تک کہ حکومت کی سو نامور کالم نگار ارشد وحید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔دن کی کارکردگی کا مرغی اور انڈے کے دو لفظوں کے ذریعے خوب تمسخر بھی اڑایا گیا لیکن وہ کپتان ہی کیا جو اپنی دھن کا پکا نہ ہو۔ حکومت کو عوام کے سامنے جواب دہ بنانے کے بعد انہوں نے اپنی ٹیم کے احتساب کا وعدہ بھی پورا کرتے ہوئے وزرا کو لائن حاضر کر لیا، ایک ہفتے کے وقفے سے وفاقی کابینہ کے دو خصوصی اجلاس منعقد کر کے گھنٹوں میں محیط طویل نشستوں میں وفاقی کابینہ کے ارکان سے خوب باز پُرس کی۔ وزیر اعظم نے وزرا سے خود سوالات کئے جبکہ صاف الفاظ میں انہیں باور کرا دیا کہ ان کی گاڑی پہ جھنڈا تب تک ہی لگا رہے گا جب تک وہ دئیے گئے اہداف کو پورے کرتے رہیں گے ۔اس دوران کابینہ کے دیگر ارکان کو شیخ رشید اور مراد سعید کے نقش قدم پہ چلنے کی ترغیب بھی دی گئی۔ وزراکے احتساب کے دوران وزیر اعظم نے یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ ان کی کارکردگی کا جائزہ سہ ماہی بنیادوں پہ ہو گا گویا احتساب کی تلوار ان کے سروں پہ مسلسل منڈلاتی رہے گی۔اس دوران کابینہ کے ارکان کو پانچ سالہ اسٹرٹیجک اہداف مقرر کرنے اور ان پہ عمل درآمد کیلئے جامع لائحہ عمل اختیار کرنےکی بھی ہدایت کی گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے سو دن پورا ہونے پہ عوام کی مشکلات سے لے کر ملکی معیشت کی صورتحال تک زمینی حقائق کی روشنی میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان وفاقی وزرا کے قلمدان تبدیل کر سکتے ہیں جبکہ بعض وزرا کو ان کی کارکردگی کے ضمن میں فارغ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن خود احتسابی کی اس ابتدائی مشق کے دوران سزا تو کسی کو نہ ملی تاہم جزا کے طور پہ وزیر مملکت مواصلات مراد سعید کو وزیر مملکت سے وفاقی وزیر کے عہدے پہ ترقی دے دی گئی۔ مراد سعید کی ترقی پہ ایسے طنز کئے گئے کہ اخلاقی حدود تک پار کر لی گئیں لیکن منفی سوچ کے حامل ایسے افراد کو ادراک ہونا چاہئے کہ بطور وزیر مملکت اس نوجوان نے نہ صرف سو دنوں میں وزارت کی آمدنی میں تین ارب روپے سے زیادہ اضافہ کیا بلکہ بائیس سو ارب روپے کی قیمتی زمین بھی قبضہ گروپوں سے وا گزار کرائی، اس مختصر عرصے میں اس نے بائیس سو نوکریاں پیدا کیں اور ایک ہزار مزید ملازمتوں کیلئے این او سی کی درخواست بھی دی۔ یہی نہیں بلکہ مراد سعید نے شاہرات کو جرائم سے محفوظ بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی حامل ایپس متعارف کرائیں اور گزشتہ دور حکومت کے اہم منصوبوں کا فرانزک آڈٹ بھی کرایا
جس دوران کرپشن کی نشان دہی پہ وزارت کے افسران سے ریکوری کے ساتھ ان کے خلاف محکمانہ کارروائیاں بھی شروع کی گئیں، اسی فرانزک آڈٹ کے دوران کئی شرفا ان کے سامنے بے نقاب ہوئے جن کا ذکر انہوں نے قومی اسمبلی میں ان الفاظ میں کیا تھا کہ اپوزیشن کے سات افراد نے ان سے این آر او مانگا ہے۔درحقیقت اپوزیشن کے یہ سات لوگ وہ ہیں جنہوں نے وزارت مواصلات کے بڑے تعمیراتی منصوبوں میں مبینہ کرپشن سے مال کمایا ہے اور اب انہوں نے مراد سعید سے ہتھ ہولا رکھنے کیلئے کہا ہے لیکن میری اطلاعات کے مطابق مراد سعید کپتان کی ہدایت پہ تمام تفصیلات نیب کو فراہم کر رہے ہیں اور جلد ہی پارلیمنٹ میں بیٹھے اپوزیشن کے یہ معززین بھی پیشیاں بھگتتے نظر آئیں گے۔ یہ تو ہے کارکردگی پہ جزا دینے کا معاملہ لیکن جہاں تک سو دن کی کارکردگی پہ سزا دینے کا تعلق ہے تو اس میں بھی وزیر اعظم کی طرف سے مزید تین ماہ دینے کا فیصلہ درست ہے کیونکہ ابتدائی تین ماہ میں تو کابینہ کے کسی بھی رکن کو بمشکل اپنے زیر انتظام اداروں ،افسران اور متعلقہ ذمہ داریوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے جبکہ تحریک انصاف کے وزراء میں اکثریت ان کی ہے جنہیں پہلی بار وفاقی سطح پہ قلمدان سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔ تجربے کی کمی یقیناًایسے وزراء کے آڑے آ رہی ہے لیکن انہیں اتنا موقع ضرور ملنا چاہئے کہ وہ خود کو سونپی گئی ذمہ داریوں کا اہل ثابت کر سکیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری کہ تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے اس خود احتسابی کو ایسے پیش کیا گیا جیسے ملکی تاریخ میں پہلی بار وزرا کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پہ کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو حالانکہ قارئین کی یادداشت کیلئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے حلف اٹھانے کے بعد وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے باور کرایا تھا کہ وزرا کی کارکردگی کا ہر تین ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا اور تسلی بخش کارکردگی نہ دکھانے والے وزیر یا مشیر کو گھر کا راستہ دکھا دیا جائے گا لیکن وہ تین ماہ حکومت کا ڈیڑھ سال پورا ہونے پہ آئے۔ بطور وزیر اعظم نواز شریف نے کابینہ کے ارکان کا احتساب کرنے کیلئے اکتوبر 2014میں خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا اور باور کرایا کہ یہ اجلاس تین سے چار دن تک جاری رہے گا ، وفاقی کابینہ کے اس خصوصی اجلاس میں کابینہ ارکان کو اپنا اعمال نامہ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تب کارکردگی کی بنیاد پہ وفاقی کابینہ میں ردو بدل کے وزیر اعظم کے عزائم کو دیکھتے ہوئے وزرا کے چہروں پہ ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور وہ اپنا قلمدان بچانے کیلئے بیوروکریٹس سے پریزنٹیشنز تیارکرواتے نظر آئے۔ بطور وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی کابینہ کے ارکان کی کارکردگی کے جائزے کیلئے 28 اکتوبر 2014 کو پہلا خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں رات تک صرف تین سے چار وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ ہی لیا جا سکا ،اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور وزیر اعظم وزرا کے احتساب کا عمل ایسے بھولے کہ دوبارہ انہیں کبھی یاد نہ آیا۔ حکومت کی آدھی مدت گزرنے کے بعد ایک بار انہوں نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو ہدایت کی کہ وزرا کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کیلئے میکانزم بنایا جائے، احسن اقبال نے وزیر اعظم کی ہدایت پہ پرفارمنس ایگریمنٹ کے نام سے ایک پرفارما بھی تیار کرلیا لیکن وزیر اعظم اور حکومت کی ترجیحات میں وزراء کا احتساب کہیں جگہ نہ پاسکا۔ماضی کی ایسی مثالوں کو دیکھتے ہوئے جب وزیر اعظم عمران خان خیبر پختونخوا کے وزراکو ناقص کارکردگی پہ ہٹائے جانے کی تنبیہ کرنے کے دوران یہ بھی فرمائیں کہ گزشتہ دور حکومت میں وہ اس لیے کسی وزیر کو نہیں ہٹا سکے کیونکہ انہیں فارورڈ بلاک بننے کا ڈر تھا لیکن اب ان کی بھاری اکثریت ہے اور وہ خیبر پختونخوا کابینہ میں کچھ بھی ردو بدل کر سکتے ہیں تو یہ شک ہوتا ہے کہ اب وہی ڈر کہیں خان صاحب کو وفاقی کابینہ میں کارکردگی کی بنیاد پہ احتساب کرنے سے نہ روک دے۔ وفاق میں معمولی اکثریت کہیں ان کے خود احتسابی کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔