اپنی زندگی جینا شروع کیجیے۔
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب “کامیاب زندگی کے راز” سے انتخاب۔ مسکان رومی اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان
کسی جنگل میں ایک سیانہ کوا رہتا تھا۔ کوا بہت خوشحال زندگی گزار رہا تھا ۔ بغیر کسی فکر کے وہ پورا دن گھومتا پھرتا اور طرح طرح کے کھانے پینے کا لطف اٹھاتا۔اندھیر ہوتے ہی کسی خوشبودار درخت پر رات بسر کرتا۔زندگی کے حسین دن گزارتے گزارتے ایک دن جب اس کی ایک ہنس سے ملاقات ہوٸی تو اس ملاقات کے بعد وہ پریشان رہنے لگا۔ دراصل اس کی پریشانی کی وجہ یہ فکر تھی جو اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی کہ ہنس اتنا سفید ہے اور میں اتنا کالا‘
یہ ہنس دنیا کا سب سے خوش پرندہ ہوگا ‘ کوے نے اپنے خیالات ہنس کو بتائے‘ ہنس نے کہا اصل میں مجھے لگتا تھا میں سب سے زیادہ خوش ہوں جب تک میں نے طوطا نہیں دیکھا تھا‘ طوطے کے پاس دو مختلف رنگ ہیں‘ اب میں سوچتا ہوں طوطا سب سے زیادہ خوش ہوگا‘۔ کوا طوطے کے پاس پہنچا‘ طوطے نے کوے کو بتایا‘ میں بہت خوش زندگی گزار رہا تھا‘ پھر میں نے مور دیکھا‘ میرے پاس تو صرف دو رنگ ہیں جبکہ مور کے پاس کئی رنگ ہیں۔ کوا مور سے ملنے چڑیا گھر جا پہنچا‘ وہاں کوے نے دیکھا کہ سینکڑوں لوگ مور کو دیکھنے آئے ہوئے ہیں‘لوگوں کے روانہ ہونے کے بعد کوا مور کے قریب گیا‘ کوے نے کہا پیارے مور! تم بہت خوبصورت ہو‘تمہیں دیکھنے روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں‘ مجھے لگتا ہے تم دنیا کے سب سے خوش رہنے والے پرندے ہو۔ مور نے جواب دیا‘ میں بھی سوچتا تھا میں سب سے خوبصورت اور خوش پرندہ ہو لیکن میں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے میں چڑیا گھر میں قید ہوں‘ میں نے چڑیا گھر پر کافی غورکیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ صرف کوا وہ واحد پرندہ ہے جو چڑیا گھر کے کسی پنجرے میں قید نہیں‘ پچھلے کچھ دنوں سے مجھے لگتا ہے اگر میں کوا ہوتا تو آزاد ہوتا۔ اگر بغور جاٸزہ لیں تو ہم میں سے کچھ انسان بھی ایسے ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ زندگی کا موازنہ کرتے کرتے ناشکری کرنے لگ جاتے ہیں۔ جو اللہ نے دیا ہوتا ہے اس سے بھی لطف حاصل نہیں کر پاتے۔ اپنے پاس دس روپے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے سو پر نظر رکھنے کیوجہ سے بے چین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن انسان پھر بھی ناشکرا ہے
اپنے سے زیادہ والے سے موازنہ احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے ۔ موازنہ کرنا ہی ہو تو اپنے سے کمتر سے کیجیے اور پھر اللہ کا شکر کیجیے جس نے اس قدر نعمتوں سے نوازا ہے ۔ موازنہ دراصل متوازن زندگی کو بگاڑ بھی سکتا ہے ۔ مثلا اگر ہم کسی برتر انسان کی زندگی سے موازنہ کریں تو احساس کم تری میں مبتلا ہو جاٸیں گے اور یہ احساس ہمیں ناشکرا بنا دے گا ہر وقت اللہ سے گلہ اور مایوسی کی زندگی ہمیں اس کی عطا کردہ نعمتوں کے لطف سے محروم کر دے گی ۔اب دوسری صورت ہے کہ اپنے سے کم تر سے موازنہ کیا جاۓ تو اس صورت ہمیں احساس برتری لاحق ہو جاۓ گا اور ہم خود کو دوسروں سے ممتاز افضل جانتے ہوۓ غرور اور تکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں میری ذاتی راۓ میں کوشش کیجیے کہ اپنی زندگی کاموازہ دوسروں سے بالکل نہ کریں ہاں البتہ جب آپ کی خود اعتمادی اور صبر و شکر کامعیار اتنا بلند ہو کہ آپ ناشکرے اور بے صبرے ہونے سے بچ جاٸیں اس صورت موازنہ کریں تو اپنے سے برتر کودیکھ کر رشک کریں دعا دیں اور کم تر کو دیکھ کر شکر ادا کریں دعا کریں گے تو موازنہ خیر اور بھلاٸی ثابت ہو گا ۔ کمزور عقاٸد لوگوں کے لیے یہ موازنہ زہریلی دوا کی طرح ہے کہ وہ دوسروں سے موازنہ کر کر کے اپنی جو چند خوشیاں ہیں ان کو بھی برباد کر لیتے ہیں‘جتنا وقت ہم گلہ کرنے میں ضاٸع کرتے ہیں اتنا عملی کام کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں تو یقین مانیے ہمارایہ عمل ہمیں ہر روز خوشیوں میں اضافہ کرواتا ہوا دیکھاٸی دے گا۔ڈاکٹر اعظم کی اس مثال کو ذرا توجہ سے پڑھیں تا کہ موازنہ کےوقت آپ کو یاد آۓ اور آپ پٹری سے نہ اتریں ۔ایک نیک انسان مسجد گیا اور اس نے خوب اچھے سے نماز ادا کی پھر اللہ کا خوب ذکر حمد و ثنا کر کے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے اسے یاد آیا میرے پاس جوتا نہیں ہے ۔اس نے فورا دعا کی اے اللہ میرے پاس جوتا نہیں ہے تو مجھے جوتا عطا کر دیکھ میں نے تیری اتنی عبادت کی اور تو نے مجھے جوتا تک نہیں دیا ۔اس گلے شکوے پر امین کر کے جب وہ مسجد سے باہر نکلا تو اس نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے پاوں ہی نہیں ہیں اسے سخت شرمندگی ہوٸی واپس مسجد پلٹا اور اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر معافی مانگی اور شکر ادا کیا کہ اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو نے مجھے پاوں تو دیے ہیں۔ ہمارا حال اس شخص کی پہلی کیفیت والا ہے ہم صرف شکوے ہی شکوے کرتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے ہمیں کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے ۔ زندگی کا حسن اسی میں کہ جو آپ کے پاس ہے اس سے لطف اٹھاٸیے ۔اس سے محبت کیجیے ۔قدر کیجیے اور ہر لمحہ اس کا شکرادا کیجیے ۔الحَمْدُ ِلله کو اپنی زبان پر جاری کیجیے ۔ اللہ وعدہ خلاف نہیں ۔ اس نے کہا ہے تم میرا شکر ادا کرو میں تم پر اپنی نعمتوں کو بڑھا دوں گا ۔ *تو مایوسی کی اس اصل وجہ یعنی موازنہ کو خیر آباد کیجیے اور ماشاءاللہ ، الحَمْدُ ِلله ، سبحان الله، جزاك اللهُ، اور ان شاء اللہ کے ساتھ ساتھ أَسْتَغْفِرُ اللّٰه کو اپناتے ہوٸ زندگی کے حقیقی حسن کو انجواۓ کیجیے