توہین عدالت کیس میں جنگ گروپ نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرادیا ہے جس میں کہا گیا کہ جنگ گروپ عدلیہ کی آزادی ، عزت وقار عظمت اور پاکستان میں قانون کی بالادستی کی جدوجہد کی وراثت کا امین ہے۔
جنگ گروپ کے لیے تصور سے بھی باہر ہے کہ انصاف اور ججز کے احترام سے متعلق توہین کرے ، توہین عدالت نہیں کی سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ نوٹس واپس لیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ آپ کے اخبار نے جے آئی ٹی کو نشانہ بنایا اور اس سے متعلق غلط خبر چھاپی ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم سب کیلئے پریس کی آزادی مقدم ہے، غیر ضروری تنقید بھی برداشت ہے ، لیکن جب حد سے گزر جاتی ہے تو ہم گلے شکوے کیلئے بلاتے ہیں، ہمارے دروازے کھلے ہیں کبھی ہماری بات بھی مان لیا کریں۔
جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ صرف ایک خبر غلط ہوئی ، باقی سب درست ثابت ہوئیں، ادارے نے رضا کارانہ معافی مانگی ، عدالت نے نہیں کہا تھا، کہا گیا خبریں کسی کی ایماء پر چھاپی ، الزام سے ہمارے ایڈیٹوریل بورڈ کو شدید تکلیف ہوئی، عدالت میں کہا گیا کہ ہم کس کی ایماء پر خبریں چھاپ رہے ہیں، بصد احترام اگر میرا اسٹاف مجھ سے یہ پوچھے تو میں کہوں گا کہ آپ کس کی ایماء پر یہ سوال کر رہے ہیں مگر میں توعدالت سےسوال بھی نہیں کر سکتا۔ عدالت نے جواب کا جائزہ لینے کے بعد جواب پر مزید دلائل دینے کیلئے کیس کی مزید سماعت 22؍ اگست تک ملتوی کردی ۔ تفصیلات کے مطابق توہین عدالت کیس میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن عدالت عظمی میں پیش ہوئے۔ سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
جنگ گروپ کے پرنٹر پبلشر میر جاوید الرحمٰن، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن اور دی نیوز کےرپورٹر احمد نورانی کا سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا اور کہا کہ توہین عدالت کے نوٹس میں بیان کردہ کوئی بھی اقدام اور غلطیاں معزز ججز کے خلاف اور توہین عدالت نہیں ، توہین عدالت نہیں کی عدالتی نوٹس واپس لیا جائے، میر شکیل الرحمٰن نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ایڈیٹرز کی رائے ہے وٹس ایپ اور دیگر خبریں درست ہیں اگر خبریں درست نہیں عدالت نوٹس لے تاکہ رپورٹرز کی سرزنش کر سکوں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آزادی صحافت مقدم ہے جب برداشت سے گزر جاتی ہے تو گلے شکوے کے لیے بلا لیتے ہیں ہمارے دروازے کھلے ہیں کبھی ہماری بھی بات مان لیں ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آزادی صحافت مقدم ہے کسی پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہئے۔ عدالت نے کہا آپ کے اخبار نے جے آئی ٹی کو نشانہ بنایا، غلط خبر چھاپی۔ ایڈیٹر انچیف نے کہا جے آئی ٹی سے متعلق صرف ایک خبر غلط ثابت ہوئی ،ادارےنے رضاکارانہ معافی مانگی۔آئی ایس آئی اور وٹس ایپ سمیت دیگرتمام خبریں درست ثابت ہوئیں ۔ عدالت میں کہا گیا کہ ہم کس کی ایماء پر خبریں چھاپ رہے ہیں، بصد احترام اگر میرا اسٹاف مجھ سے یہ پوچھے تو میں کہوں گا کہ آپ کس کی ایماء پر یہ سوال کر رہے ہیں، مگر میں توعدالت سےسوال بھی نہیں کر سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ذرائع کو بنیاد بنا کر خبر چھاپی گئی کہ عدالت یہ حکم دینے جا رہی ہے۔ خبر ایسے چھاپی گئی جیسا کہ کوئی عدالتی حکم ہو۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم اس بات سے آمادہ ہیں کہ آپ کے بنیادی حقوق کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم آپ سے تکرار نہیں کر رہے لیکن آپ کے اخبار نے جان بوجھ کر ایسی خبریں چھاپیں، آپ کو بھرپور موقع فراہم کریں گے۔ جسٹس عظمت شیخ نے کہا کہ آپ کی اخبار میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے نتائج پر مبنی خبر چھپی جو غلط ثابت ہوئی اور آپ کو اپنے اخبار میں اس کی معافی چھاپنی پڑی۔ میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ ادارے نے رضاکارانہ معافی مانگی، عدالت نے نہیں کہا تھا۔مجھے دکھ ہوا ہماری ایک خبر غلط ہو گئی۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ سے متعلق بھی غلط رپورٹنگ ہوئی تھی، میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ جہاں خبر غلط ہو گی معافی مانگنا چاہئے۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ ہم جو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب کے لیے پریس کی آزادی مقدم ہے۔ میں نے اپنے فیصلوں میں لکھا کہ اگر کوئی غیر ضروری تنقید ہو تو بھی برداشت کر لیں گے لیکن جب برداشت سے چیزیں گزر جاتی ہیں تو ہم گلے شکوؤں کے لیے بلاتے ہیں۔ہمارے دروازے کھلے ہیں کبھی ہماری بات بھی مان لیا کریں۔ میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ جو آپ کے ریمارکس ہوتے ہیں وہ آرڈر شیٹ میں نہیں ہوتے، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر آپ کہتے ہیں تو آئندہ اپنے ریمارکس کو آرڈر میں شامل کر لیں گے، کیا آپ اس بات پر زور دے رہے ہیں، اس سے مسئلہ پیدا ہو گا۔
میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ یہ آپ کا حق ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو نوٹس دیا ہے اس میں سب چیزیں آ جائیں گی ہمیں پریس کی آزادی مقدم ہے مگر کسی پر کیچڑ نہیں اچھالنا چاہیے۔ میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ فاضل جج صاحبان سے اتفاق کرتا ہوں۔ میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ عدالت نے اشتہارات کا تین ماہ کا ریکارڈ منگوانے کی بات کی جو حکومت کی جانب سے تاحال نہیں پیش کیا گیا، اجازت دی جائے کہ جنگ گروپ یہ تفصیلات عدالت میں پیش کرے۔ نہ صرف تین ماہ بلکہ موجودہ دور حکومت، گزشتہ حکومت اور اس سے پچھلی حکومت کے اشتہارات کی تفصیلات منگوائی جائیں۔
اشتہارات اسی کو زیادہ ملتے ہیں جو اخبار مارکیٹ میں زیادہ پڑھا جاتا ہو اور جو چینل سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہوں۔ خیبر پختونخوا میں جہاں عمران خان کی حکومت ہے وہاں سے جیو سمیت جنگ گروپ کو سب سے زیادہ اشتہار ملتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اشتہارات کا معاملہ اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہے،آپ جو جواب داخل کرنا چاہتے ہیں 22؍ اگست تک کردیں۔ قبل ازیں سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں جنگ گروپ نے سپریم کورٹ سے انتہائی مودبانہ گزارش کی گئی ہے۔
’’حسین نواز کی تصویر کی لیک سے متعلق درخواست مسترد کیے جانے‘‘ کی خبر تمام الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا اور نیوز ایجنسیوں نے ایک جیسی ہی نشر اور شائع کی۔ لہذا اگر سپریم کورٹ کے حکم نامہ کو حقائق کے برعکس نشر یا شائع کرنے کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے تو تمام الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی ان خبروں کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے تاکہ کسی ایک میڈیا ادارے کے خلاف امتیازی سلوک کا تاثر نہ ابھرے، اس حوالے سے جنگ گروپ نے الیکٹرونک، پرنٹ میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کی جانب سے نشر اور شائع ہونے والی ان خبروں کا مسودہ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ہے تاکہ دیگر ذرائع ابلاغ کی ان خبروں کا بھی بغور جائزہ لیا جاسکے۔ اپنے جواب میں جنگ گروپ نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے نوٹس میں غلط رپورٹنگ سے متعلق دی نیوز کا بھی تذکرہ کیا حالانکہ دی نیوز میں مذکورہ خبر درست طور پر شائع کی گئی۔ جواب میں واضح کیا گیا کہ دی نیوز نے حکمنامے کے ویڈیو ریکارڈنگ سے متعلق پہلو کو درست طور پر رپورٹ کیا۔ اس خبر کی سرخی عدالتی حکم سے مطابقت رکھتی تھی:کہ ’’سپریم کورٹ نے حسین نواز کی ویڈیو ریکارڈنگ روکنے کی درخواست مسترد کردی‘‘۔
حسین نواز کی تصویر لیک کے بارے میں کمیشن کی تشکیل کی خبر بھی دی نیوز میں درست شائع ہوئی تھی۔ویڈیو ریکارڈنگ سے متعلق حکمنامے کا پہلا حصہ روزنامہ جنگ میں بھی درست شائع ہوا تھا۔تاہم تصویر لیکج سے متعلق آرڈر کا دوسرا حصہ روزنامہ جنگ میں مختلف چھپا یعنی مکمل درخواست(کمیشن کی تشکیل سے متعلق دوسری درخواست بھی مسترد ہوگئی۔) تاہم اسی اخبار میں اسی دن بیک وقت ایک اور جگہ آرڈر درست شائع ہوا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو شائع کرنے سے متعلق کوئی عناد کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا اور رپورٹنگ کو حقائق کے برعکس شائع نہیں کیا گیا۔
جنگ گروپ نے دیگر بڑی اخبارات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان اخبارات نے بھی اس عدالتی حکم کو شائع کیا کہ ’’درخواست مکمل مسترد ہوگئی‘‘ انہیں بھی غلط رپورٹنگ کا مرتکب قرار دیا جائے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ عدالتی حکم نامے کی رپورٹنگ کی صورتحال الیکٹرانک میڈیا کے چینلز پر مختلف نہیں تھی ، جیسا کہ آج ٹی وی، اب تک ٹی وی، اے آر وائی نیوز، بول ٹی وی، کیپٹل ٹی وی، دنیا نیوز، ایکسپریس نیوز، 92 نیوز، پاک نیوز اور جیو نیوز نے بھی درخواست کے مسترد کیے جانے کی ہی خبر نشر کی تھی، جبکہ نیوز ایجینسیاں این این آئی، آئی این پی، آن لائن، ایس ایس کے اور اے این این نے بھی مذکورہ خبر کو اس طرح شائع کیا کہ حسین نواز کی دونوں درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں۔