لاہور (ویب ڈیسک) موجودہ حکومت کی جانب سےقرضوں سےمتعلق بہت کچھ میڈیا میں کہاگیا،غالباًیہ اپنی نااہلی، خراب حکومت اور عوام مخالف پالیسیزجو 70روز کےدوران ہی واضح ہوگئی ہیں، اس سےعوامی توجہ ہٹانےکیلئےہے۔ یہ سمجھنےکی ضرورت ہے کہ کسی بھی حکومت کیلئےعوامی قرضےہوتےہی ہیں جو اس کےدورِ حکومت میں پاکستانی روپےکی قدرمیں کمی کے باعث ،
غیرملکی قرضوں کی مد میں سالانہ بجٹ خسارے میں شامل ہوتےہیں۔ چونکہ مذکورہ بجٹ خسارے کوپارلیمنٹ نےمنظورکیاہےتو سارا عمل شفاف ہے اوریہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے،اس میں کسی کیلئے بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیئے۔ جب پی ایم ایل(ن) نے جون 2013میں میاں نواز شریف بطوروزیراعظم کےساتھ اپنی حکومت کا آغاز کیا تو اسے بھی کئی مشکلات ورثےمیں ملیں، جیسا کہ بڑا مالی خسارہ، بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ، زرِ مبادلہ کے کم ذخائر، ٹیکس ریوینومیں کمی، کم ہوتےہوئے ٹیکس، بڑھتے ہوئے اخراجات، گردشی قرضوں میں اضافہ جو توانائی کے شبعے کو کمزورکررہے تھے، سرمائے کی منتقلی، کمزورہوتاہوا ایکسچینج ریٹ اور خطرناک حد تک کم ہوتا ہوا سرمایہ کاروں کا اعتماد۔بیرونی محاذپراہم ڈویلپمنٹ پارٹرنزنے کمزورمعاشی اشاروں کے باعث سپورٹ ختم کردی تھی۔ اہم مشکلات میں سے ایک بیرونی سرمائے کی غیرموجودگی تھی جس کےباعث اندرونی ایکسچینج مارکیٹ میں مشکلات کاسامناتھا اور عوامی قرضوں کا حجم اندرونی قرضوں پرمنتقل ہورہاتھا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کےغیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر جوجون 2013میں 6ارب ڈالر تھے وہ فروری 2014میں 2.8ارب ڈالر رہ گئے، کیونکہ خالصتاً معیشت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، پی ٹی آئی کے ایم این اے کے غیرذمہ دارانہ بیان کے باعث اسے مزید ہوا ملی جن میں جرات تھی کہ وہ ستمبر2013میں یہ ذمہ داری لیتے کہ ایکسچینج ریٹ ڈالر کے مقابلے میں 127روپے ہوجائےگا۔
معیشت بیرونی اکائونٹس کوچلانے کیلئےیہ بہت خطرناک صورتحال اور تھی۔ 2013کے آغاز میں ایسی پیش گوئیاں کی گئیں تھیں کہ اگر حالات بدلنے کیلئے ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک دیوالیہ ہوجائےگا۔ ایسی پیش گوئیاں معاشی ماہرین نے کی تھیں، جنھوں نے میکرواکنامک صورتحال کاتجزیہ کیاتھا اور یہ نتیجہ اخذ کیاتھاکہ ملک کے پاس فروری 2014 کےبعداپنی ضروریات پوری کرنےکیلئےغیرملکی زرِمبادلہ کےضروری ذخائر نہیں ہیں۔ کم ہوتے ہوئے زرِ مبادلہ کےذخائر اورگرتی کوئی کرنسی کی قدر کوروکنےکی اشد ضرورت تھی، یہ نومبر2013میں تقریباً111روپے فی ڈالر ہوچکی تھی کیونکہ افراط زرمیں اضافہ ہو رہا تھااورقرضےبڑھ رہےتھے۔ قرض داری کے اثرکوقابو کرنے کیلئےشرح سودکومستحکم کرتےہوئے اندرونی قرضوں کی میچورٹی پروفائل میں اضافےکی اہمیت ضروری ہوگئی تھی۔ گیلری میں کھلنے اور سابقہ پی پی پی حکومت پرالزامات لگانے کی بجائےجون2013میں حکومت سنبھالنے کے بعد پی ایم ایل(ن) حکومت نے فوراً بحالی کا کام شروع کیا اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے ضروری اقدامات کیے، معاشی نظم وضبط بحال کیا، تباہ ہوتی معیشت کو مستحکم کیا اور تیز رفتارترقی کی بنیاد رکھی۔ پی ایم ایل(ن) کی حکومت نےاپنے پہلے بجٹ 2013-2014میں سٹرکچرل ریفارمز متعارف کرائے۔ پی پی پی حکومت 2008میں آئی ایم ایف کے ساتھ کل 11.5ارب ڈالر کے قرضے کیلئے ہنگامی انتظامات کر چکی تھی لیکن باقی معاشی ریفارمز نافذ کرنے میں اپنی نااہلی کے باعث 745 کروڑ 50لاکھ ڈالر کےبعد پروگرام ختم کردیا۔
پی پی پی کے مذکورہ قرضوں میں سےپی ایم ایل(ن) کواپنی حکومت میں 4.6ارب ڈالر ادا کرنے پڑےلہٰذا ہمیں ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (ای ایف ایف) میں جانا پرا، اس پر جولائی 2013میں اتفاق ہواتھا۔ لیکن معاشی استحکام کی خاطر پی ایم ایل(ن) کی حکومت نے پورا ریفارم پروگرام مکمل کیا تاکہ پاکستان کی ساکھ بحال ہوسکےاور پاکستان 7سال کی غیرحاضری کے بعد دوبارہ بین الااقوامی کیپٹل مارکیٹ میں داخل ہوسکے۔ اسی دوران دیگر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایف آئی) پالیسی لون کے ذریعےرعایتی غیرملکی ذرائع حاصل کرنے میں مصروف ہوگئےکیونکہ معاشی عدم استحکام کے باعث انھوں نے پاکستان کے ساتھ کاروبار روک دیاتھا۔ کئی متحرک سیاسی آوازیں پی ایم ایل (ن) کی معاشی ترقی کے بارے میں شکوک بڑھا رہی ہیں اور بالخصوص قوم کی غلط نمائندگی کررہی ہیں، پی ایم ایل(ن)کے دورِحکومت 2013-18کےدوران ملک میں جمع ہونےوالے عوامی قرضوں کے بارے میں ایسا کم علمی کی وجہ سے ہے یا پھر بامقصد ہے۔ ’فسکل رسپونسبلیٹی اور ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ‘ کے مطابق ٹوٹل پبلک ڈیٹ کو حکومت(صوبائی اور وفاقی حکومت) کے قرضے بینکنگ سسٹم میں کم حکومتی سرمایہ اورآئی ایم ایف کےقرضے کے طورپر بیان کیاجاتاہے۔لہٰذا موجودہ حکومت کی جانب سے کہا گیا 30جون2018کو 30ہزار ارب روپے بطور کُل پبلک قرضہ کے اعدادوشمار غلط ہے اور درست 23051ارب روپے ہیں۔
اس کی تفصلات مندرجہ ذیل ہیں۔ قانون کے مطابق ریکارڈ کو سیدھا رکھنا اہم ہے۔ مندرجہ ذیل ٹیبل میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مختلف حکومتوں کےدوران قرضوں کی تفصیلات دکھائی گئی ہیں۔مندرجہ بالا ٹیبل سےیہ واضح ہے کہ 1999-2008 کی مشرف حکومت کےدوران کُل عوامی قرضوں میں 97فیصد اضافہ ہوا پی پی پی کے دور2008-13 میں یہ 153فیصد بڑھ گئے اور پی ایم ایل کے دورِ حکومت 2013-18 کے دوران یہ 71فیصد تھے، یہ اضافہ بمشکل 46فیصد(6177ارب روپے)تھا اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) حکومت نے سخت معاشی پالیسی متعارف کرائی اور حقیقی معاشی اقدامات کیے ان میں وزیراعظم اور وزراءکے خفیہ فنڈز کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ 2017-18 کےدوران قرضوں میں اضافہ 3416ارب روپے تھا جس میں سے 1978ارب روپے بیرونی قرضہ تھا۔ رواں سال جوہوا جس کے باعث قرضوں میں 19635 ارب روپے سے 23051ارب روپے اضافہ ہوا ، یا 46فیصد سے 71فیصد یہ انتہائی بدقسمتی ہے کیونکہ وزیراعظم نواز شریف کو عہدے سے برطرف کردیاگیا اور مصنف نے وزراتِ دفاع کا چارج بھی نومبر2017 میں چھوڑ دیا۔ پی ایم ایل(ن) کے نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی معاشی ٹیم کوبڑےغیر بجٹی مطالبات کاسامنا کرنا پڑا اور نتیجتاً معاشی استحکام جو گزشتہ چار سالوں میں آیا تھا وہ قائم نہ رہ سکا۔
دنیا بھر میں قرضوں کاذکرکُل ہندسوں میں نہیں کیاجاتا بلکہ جی ڈی پی کے ساتھ فیصد میں کیاجاتاہے یہ معاشی سیاق وسباق میں زیادہ معنی خیزہے۔ عام طورپر جی ڈی پی قرضوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور پاکستان کا جی ڈی پی جون 2013میں 22386ارب روپے سے بڑھ کر جون 2018میں 34397ارب روپے ہوگیا۔ جی ڈی پی کے حساب سے پاکستان کےکُل قرضے جون 2013 میں 60.1فیصد تھے جو جون 2017میں 61.4فیصد بڑھ گئے اور سیکیورٹی سے متعلقہ اخراجات یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ (ضربِ عضب) کے باعث جون 2018میں 67 فیصد بڑھ گئے اور پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پراجیکٹس میں بھاری سرمایہ کاری جس میں ملک سے گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، سڑکوں کی بہتری، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ذرائع مواصلات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اتفاقیہ طورپر 2018 میں امریکا کے قرضے جی ڈی پی کا106فیصد تھے، جاپان میں 221فیصد، اٹلی 138 فیصد، بیلجیم 115فیصد اور سنگاپور کے105فیصد تھے یہ سب پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ضرور یاد رکھا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے سیاسی دھرنوں جو کئی ماہ تک جاری رہے اور جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کیلئے ان کی اراکین کی جانب سے قومی اسمبلی میں استعفے جمع کرانے کےباجود پی ایم ایل(ن) نے اپنے دورِ حکومت میں اللہ کی مہربانی سے وفاقی ٹیکس کلیکشن میں 100فیصد اضافہ کیا، جی ڈی پی میں 3فیصد سے 5.8فیصد (13سال میں سب سے زیادہ) اضافہ ہوا اور افراطِ زرکم ترین ہوگیا، برآمدات ری فنانس یالانگ ٹرم فنانس کی سہولت کی شرح گزشتہ 40 سالہ کے مقابلے میں اضافہ ہوا اور,
غیرملکی ترسیلاتِ زر 13.9ارب ڈالر سے بڑھ کر 19.4ارب ڈالر ہوگئی، ایکسچینج ریٹ مستحکم اور قومی فارن ایکسچینج زرمبادلہ فروری 2014میں 7.5ارب ڈالر سے 30جون 2017تک 21.4ارب ڈالر تک بڑھ گئے۔ عالمی ادارےاور ریٹنگ ایجنسیاں بشمول موڈیزسٹینڈرڈ اور پوورز، فوربز، بلومبرگ، اکانومسٹ اورآئی ایف آئی ان سب نےپی ایم ایل(ن) کے دورِ حکومت میں 30جون 2017 تک معاشی استحکام اور پاکستان کی ترقی پر مثبت رپورٹس دیں اور پرائس واٹرہائوس کوپرز کی رپورٹ میں پاکستان کی 2030تک جی 20میں شامل ہونے کی پیش گوئی کی گئی اورپی ایم ایل(ن) کے گزشتہ دورِ حکومت کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشیشیں کام نہ آئیں۔ مصنف نے کئی بار پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ’’چارٹرآف اکانومی‘ پر اتفاق کرنے کی پیشکش کی تاکہ معیشت سیاست سے پاک رہے لیکن بدقسمتی سے تعاون نہیں کیاگیا۔ 1999کےبعد سے مختلف حکومتوں کے دوران قرضوں کا مذکورہ بالا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے بتائے گئے قرضوں کے اعدادوشمار بے بنیاد ہیں اور اس کے سیاسی محرکات ہیں جس کسی بھی معاشی میرٹ پر پورا نہیں اترتے۔ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت افسوس کرنا بدن کرے گی جیسا انہوں نےگزشتہ پانچ سال کے دوران اپوزیشن میں کیا اور یہ کام شروع کرےکیونکہ پاکستان کے لوگ پہلے ہی 70روز کے دوران روپے کی قدرمیں کمی، پاکستان اسٹاک ایکسچینچ انڈیکس میں کمی اور بنیادی اشیاء جیسے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں غیرمثالی اضافے کےباعث کافی مشکلات برداشت کرچکےہیں۔