کراچی: رہنما تحریک انصاف عثمان ڈار نے کہا ہے کہ عوام کے وسیع تر مفاد اور قومی ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری یہ کوشش اور خواہش رہے گی کہ ہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں، قومی اسمبلی میں عمران خان نے جو مثبت کردار ادا کیا، اپوزیشن اراکین کی طرف خود چل کر گئے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن میڈیا میں تو ایسا لگ رہا ہے جیسے شاید پی پی کے ساتھ ہمارا کوئی مک مکا ہوگیا ہے۔ عمران خان اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ احتساب کا عمل سب کے لیے برابر ہے، یہ تصور نہ کیا جائے کہ جس نے پاکستان کو لوٹا ہے اس کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف نرم رویہ رکھے گی لیکن ملک کے مفاد میں ہم اپوزیشن کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ منیب فاروق سے گفتگو کررہے تھے ۔ پروگرام میں مسلم لیگ کے رہنما طلال چودھری، پیپلزپارٹی کے عاجز دھامرا اور سینئر تجزیہ کار عارف نظامی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ماضی میں منفی سیاست کرتے رہے، یہ تو کہا کرتے تھے کہ ملکی مفاد اس میں ہے کہ چور ، ڈاکواور قاتلوں کو ہمیشہ کے لیے اسمبلیوں سے نکالناہوگا ۔ اب آپ دیکھ لیں جو چپڑاسی تھا وہ وزیر ہوگا، جو ڈاکو تھا پنجاب میں اسپیکر ہوگا ، جو کراچی کے قاتل تھے وہ اتحادی ہیں اور جس کو بڑی بیماری کہا تھا اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ انہوں نے کہا ہم تو اچھے لوگ نہیں لیکن یہ تو اوپر سے اترے ہوئے فرشتے ہیں نا ،اس میں وہ سارا گند موجود ہے جو پاکستان کی پچھلے ستر سال کی کسی بھی آمر کی حکومت کے لوگ ہیں جس پر تنقید کرسکتے ہیں ۔کم از کم پرویز الٰہی کے خلاف نیب میں دی گئی درخواست واپس لے لیں ، اسی طرح زرداری کے خلاف کہیں کہ میرے سے غلطی ہوگئی تھی تاکہ قوم کو پتا چلے کہ وہ پہلے ٹھیک تھے یا اب ٹھیک ہیں یا پھر اقتدار کے لیے انہیں سب کچھ منظور ہے ۔جیسے انہیں اقتدار ملا ،ووٹ کسی کو ملا گنا ان کا گیا ، کون کونسی سہولت انہیں باہم نہیں پہنچائی گئی پھر بھی 172پورے نہیں ہورہے ۔ پی پی کے رہنما عاجز دھامرا نے کہا کہ عمران خان نے میرے لیڈر بلاول سے ہاتھ ملایا یہ عمل سیاست میں ہوتا رہتا ہے مگر کیونکہ عمران خان وزیراعظم بننے جارہے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کو عدم برداشت کی سیاست کرنی ہے ، قومی اسمبلی میں دونوں رہنما ؤں کا آپس میں مصافحہ صرف ایک ملاقات کی نظر میں دیکھنا چاہیے ۔پی ٹی آئی کی طرف سے ن لیگ اور پی پی کی ملاقات کو کہا جاتا تھا کہ مک مکا ہوا ہے ۔لیکن ابھی تو پارٹی شروع ہی نہیں ہوئی اور عمران خان نے ہاتھ ملایا۔ عمران اسماعیل کے بیان پر عاجز دھامرا نے کہا وہ کس قانون کے تحت بلاول ہاؤس کی دیواریں گرائیں گے گورنر کو آئین اجازت ہی نہیں دیتا اور ابھی تو انہوں نے گورنری کا حلف بھی نہیں اٹھا یا ہے ۔ عثمان ڈار نے مزید کہا کہ پاکستان کے ایک کروڑ 68 لاکھ عوام نے ہمیں کرپشن فری پاکستان ، اداروں کی مضبوطی کے لیے ووٹ دیا ہے، چند دن رک جائیں آپ دیکھیں گے نیب ، ایف آئی اے اور دیگر ادارے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوں گے ۔ انہوں نے بابر اعوان کے معاملے پر کہا کہ نیب آزاد ہے اور سپریم کورٹ نے اس کا فیصلہ کرنا ہے ۔جہانگیر ترین کے بیان ’ممکن ہے ن لیگی اراکین اسمبلی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے ‘ پر طلال چوہدری نے کہا کہ جہانگیر ترین ضمیر کی بات کرتے ہیں جبکہ اثاثہ جات کیس میں وہ خود نا اہل ہوچکے ہیں ۔اگر ان کے ضمیر ہوتے تو اتنے سمجھوتے کسی جماعت نے نہیں کیئے جتنے پی ٹی آئی نے کیئے ۔ پچھلے پندرہ دنوں سے ضمیر وں کے ہی سودا گر بنے ہوئے ہیں ۔یہ جو کچھ کررہے ہیں آنے والے چند دنوں میں پتا چل جائے گا۔ منیب فاروق نے کہا کہ پارلیمان شہباز شریف کے نعرے لگے لیکن نوازشریف کے لیے کسی نے بھی نعرہ نہیں لگایا اس پر طلال نے کہا اس بات کو پارلیمانی میٹنگ میں محسوس کیا گیا ہے، لیکن یہ نا سمجھیں کہ نواز شریف سے کسی کو محبت کم ہے ۔ کسی کی نیت پر کوئی شک نہیں ہم سب نوازشریف سے محبت کرتے ہیں ۔ پارلیمان میں جو کوتاہی ہوئی اسے دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا۔ عاجز دھامرا نے کہا کہ پی پی نے یہ الیکشن نہیں کروائے الیکشن کمیشن نے خود کہا ہے کہ آر ٹی ایس سسٹم خراب ہوگیا تھا تو اس نا اہلی پر سوالات تو اٹھیں گے۔ عثمان ڈار نے وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے کہاکہ پنجاب ہمارے بہت اہم صوبہ ہے ، جماعت کی ہی کوشش ہے کہ کوئی ایسا شخص لایا جائے جس کے کردار پر کوئی چیلنج نا ہو ۔کل تک چیف منسٹرآف پنجاب کا اعلان ہوجائے گا ۔ عاجز دھامرا نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت چلانے کا موقع ملنا چاہیے لیکن یہ پانچ سال صرف وضاحتیں دیتے رہیں گے۔