لاہور : و زیر اعظم اپنی مرضی کے مالک ہیں اور میڈیا بھی۔ دونوں بادشاہ ہیں‘ اب دیکھئے ہوتا کیا ہے۔
ترک علماء نے پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی۔ سعودی عرب کے مذہبی رہنمائوں نے ٹیلی فون کی اور برصغیر کے ایک ممتاز صوفی اور سکالر نے لائوڈ سپیکر کے خلاف فتویٰ دیا۔
نامور کالم نگار ہارون رشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ استعمال غلط ہو سکتا ہے‘ کوئی مشین بری نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا ایک ہتھیار ہے‘ ٹیلی ویژن اور اخبارات کی مصلحت آمیزی کا پردہ جو چاک کر سکتا ہے۔ ہر چیز کو برتنے کے مگر آداب ہوتے ہیں۔ ہر آزادی اور تمام مواقع‘ سلیقہ مندی اور ڈسپلن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہر معاشرہ مختلف ہوتا ہے۔ ہر آزادی ابتدا میں غیر ذمہ داری لاتی ہے۔ حکومت کو فیصلے صادر کرتے ہوئے اس نکتے کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ایران اور چین کی طرح‘ پاکستان میں بھی‘ سوشل میڈیا کو شائستہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ نام اور شناختی کارڈ نمبر کے بغیر‘ یہ پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت نہ ہونی چاہیے۔ پابندی عائد کرنا خطرناک ہو گا۔ مضطرب لوگ دوسری راہیں تلاش کریں گے۔ پھر یہ کہ انسانی صلاحیت آزادی ہی میں پروان چڑھتی ہے۔اتوار 26 اگست کو رونما ہونے والے دو واقعات میں‘ آزاد ٹی وی چینل سوشل میڈیا کے بوجھ تلے دب گئے… اور اگلے دن کے اخبارات بھی۔ حکمرانوں پہ نگاہ رکھنا ایک بات ہے۔ پروپیگنڈے کے طوفان سے اپاہج کر ڈالنا‘ ایک دوسری چیز۔ہم سب پروپیگنڈے کی یلغار میں بہہ گئے۔ ایک مؤقف ریلوے کے چیف کمرشل آفیسر حنیف گل کا ہے۔
ایک پاک پتن کے سابق ڈی پی او رضوان گوندل کا۔ مگر ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ شیخ رشید اور آئی جی کلیم امام کا بھی ایک نقطۂ نظر ہے۔ اکثر اخبار نویسوں نے‘ جو سنا ہی نہیں۔ سوال صرف یہ نہیں ہوتا کہ کون‘ کیسا آدمی ہے بلکہ یہ کہ رونما ہونے والا واقعہ کیا ہے اور اس میں کون قصور وار؟ پینتیس پنکچر والے غلغلے میں ہم سب نے نجم سیٹھی کی مذمت کی‘ وہ بے قصور نکلے۔ خاکسار نے ان سے معافی مانگ لی تھی۔ آج وہ شیخ رشید اور کلیم امام سے بھی معافی کا خواستگار ہے۔ ابتدائی تاثر بیان کرنے کے بعد‘ احساس ہوا کہ معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اکثر اخبار نویس خس و خاشاک کی طرح آندھی کی نذر ہو گئے۔ شیخ رشید کی اس افسر سے بات تک نہ ہوئی‘ جس نے انہیں ٹوکا اور بد تمیزی کی۔ شیخ صاحب کا انداز جارحانہ ضرور تھا مگر اس افسر کے ساتھ‘ تجارتی راہداری پہ جو انہیں بریفنگ دے رہا تھا۔ شیخ صاحب نے کہا: ”مجھے رضیہ بٹ کا ناول نہ سنائو‘‘ وہ خاموش رہا مگر حنیف گل نے کہا کہ اس انداز میں وہ بات نہ کریں۔ شٹ اپ وغیرہ کا قصّہ محض افسانہ ہے۔ شیخ صاحب خاموش رہے۔ کچھ دیر میں دو برس کے لیے‘ حنیف گل نے چھٹی کی درخواست دے دی۔
حنیف گل کی شہرت اچھی نہیں۔ اس کی طبیعت میں تیزی ہے۔ حد سے زیادہ پُر اعتماد‘ وہ حنیف عباسی سے مشابہت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پشاور اور کوئٹہ کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا موصوف نے غلط استعمال کیا۔ الزام ہے کہ ڈٹ کر مالی بے قاعدگیوں کا مرتکب ہوا۔ ایک ذمہ دار افسر نے بتایا: یہ وہی سعد رفیق کی ٹیم ہے۔ وہ نئی حکومت کو ناکام بنانے اور مزاحمت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سعد رفیق نے ریلوے کو بہتر بنایا۔ یہ مسلّمہ بات ہے‘ مگر ذمہ داریاں اپنے پسندیدہ افسروں کو سونپیں۔ شیخ صاحب کا روّیہ جارحانہ تھا تو افسروں کا اس سے بھی زیادہ غلط۔ شیخ صاحب دانا ہوتے تو بریفنگ دینے والے افسر سے یہ کہتے: موضوع پر‘ زیادہ اہم نکات پر توجہ دینا بہتر ہو گا۔نئی ٹیم بننی چاہیے۔ پرانی ٹیم میں جو ڈھنگ کے ہیں‘ برقرار رکھے جائیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جو بد عنوان ہیں‘ ان کے بارے میں تحقیقات ہو مگر قاعدے سے‘ قرینے سے۔ پاک پتن کا واقعہ مضحکہ خیز ہے۔ چند ایک کے سوا اخبار نویسوں نے ایک ہی رخ پیش کیا۔ 5 اگست شب ایک بجے‘ خاور مانیکا کی صاحبزادی نے خواجہ فریدالدین شکر گنجؒ کے مزار کا قصد کیا‘ ننگے پائوں۔
پولیس والوں نے روکا۔ لڑکی نے وضاحت کی مگر وہ ٹلے نہیں۔ مجبوراً اپنے والد کو اس نے فون کیا‘ وہ چلے آئے۔ پیدل کی بجائے‘ اب گاڑی میں سوار ہو کر‘ اسے جانا پڑا۔ مانیکا خاندان نے اس پر خاموشی اختیار کر لی۔ دوسرا واقعہ 23 اگست کو پیش آیا‘ جب خاور مانیکا کو روکا گیا۔ تلخ کلامی ہوئی اور چیف منسٹر پنجاب سے اس نے شکایت کی۔ فریقین کو بلا کر انہوں نے صلح کرانے کی کوشش کی۔ رضوان گوندل کے دوستوں کا کہنا ہے کہ اس کی توہین کی گئی۔ خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کو کہا گیا۔ چیف منسٹر ہائوس اور پولیس کے ذرائع یہ کہتے ہیں کہ یہ صریح جھوٹ ہے۔ خود اس نے پیشکش کی تھی۔ اس وقت وہ خوف زدہ تھا۔ بعد میں چالاکی پہ تل گیا۔ اس اثنا میں آئی جی پنجاب نے اپنے طور پر تحقیقات شروع کی۔ کلیم امام کا کہنا ہے کہ ان سے وزیر اعلیٰ نے رابطہ کیا اور نہ وزیر اعظم کے دفتر نے۔ ان کے بقول رضوان گوندل سے پوچھ گچھ کی تو اس نے غلط بیانی سے کام لیا۔ کہا کہ خاور مانیکا کے ساتھ متعدد رائفلیں لہراتے محافظ تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ صرف ایک تھا۔ اپنے ماتحتوں کی اس نے بے جا وکالت کی۔ ایک جواں سال خاتون سے بد تمیزی کے وہ مرتکب تھے۔ انہیں شرمندہ ہونا چاہیے تھا‘ معافی مانگنی چاہیے تھی۔
بالکل برعکس‘ رضوان گوندل نے دوستوں کے ذریعے سوشل میڈیا پہ ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اوّل اوّل کچھ نے بشریٰ بی بی کو ذمہ دار ٹھہرایا‘ بعد میں وزیر اعظم کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ بشریٰ بی بی اور عمران خان نے تو کسی سے بات ہی نہیں کی۔ وزیر اعظم کے پرسنل سیکرٹری نے کلیم امام سے رابطہ ضرور کیا۔ آئی جی نے تحقیقات کا حکم دیا اور یہ کہا: قصور وار کو سزا دوں گا‘ مگر پوری سزا‘ کم نہ زیادہ۔ یہ دوسری طرف کا مؤقف ہے۔ اخبار نویسوں کو چاہیے تھا‘ سبھی کی بات سن کر نتیجہ اخذ کرتے۔ ”کاتا اور لے دوڑی‘‘ والا روّیہ نہیں۔ اپنے تعصبات اور نفرتوں کو آسودہ کرنے کا شعار نہیں۔ پیر کی شام‘ کافی معلومات یہ ناچیز جمع کر چکا تھا۔ دس بجے کے پروگرام سنے تو ہکّا بکّا رہ گیا۔ حقائق نہیں‘ داستانیں۔ سودائے عشق اور ہے‘ وحشت کچھ اور شے۔۔۔۔۔ مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا ۔۔۔بیس برس سے کلیم امام کو میں جانتا ہوں۔ جہاں کہیں گئے‘ جرم کم ہوا۔ الیکشن 2013ء کے ہنگام پنجاب میں 24 افراد قتل ہوئے تھے‘ اس بار ایک بھی نہیں۔ انتخابی عمل میں پولیس کے کردار پر کسی نے انگلی تک نہ اٹھائی۔
نیک نام ناصر درّانی کو وزیر اعظم نے پنجاب میں داخلہ امور کا مشیر مقرر کیا ہے۔ وہ انہیں جانتے اور ان پہ بھروسہ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ درّانی صاحب اپنی مرضی کا آئی جی کیوں چاہتے ہیں؟ کلیم امام میں کیا خرابی ہے۔ دو عشرے قبل اسلام آباد اور راولپنڈی میں وہ ہم رکاب تھے۔ ایک دوسرے کو خوب جانتے ہیں۔ درّانی صاحب جانتے ہیں کہ وہ ایک لائق‘ محنتی اور قابلِ اعتماد افسر ہے۔ جان پہچان کے افسروں پہ بھروسہ قابل فہم ہے۔ جنہیں وزیر اعظم جانتے نہیں‘ ان میں بھی ایماندار اور لائق لوگ موجود ہیں۔ بہترین افسروں کی حوصلہ شکنی سے سول سروس مرجھانے لگتی ہے۔ بلوچستان سے آنے والے پنجاب کے چیف سیکرٹری اکبر درّانی بھی ڈھنگ کے آدمی ہیں۔دوسروں کا تو کیا ذکر ڈاکٹر شعیب سڈل اور ڈاکٹر امجد ثاقب بھی ان کے قائل ہیں۔ کیا انہیں بھی واپس بھیج دیا جائے گا۔ آخر کیوں؟ افسر شاہی کے لیے‘ تقرر اور تبادلوں کے لیے‘ ایک جہاندیدہ افسر درکار ہے۔ ایک صدی ہوتی ہے‘ برصغیر میں پہلی بار‘ لاہور کے نواح میں ہیڈ رسول کے مقام پر‘ دریا پہ پہلا بند بننا شروع ہوا تو دیہاتی کہا کرتے: دریا بادشاہ ہے اس کی راہ کون روک سکتا ہے۔ بند بنتا رہا تو مرعوب‘ یہ کہنا شروع کیا: دریا بادشاہ ہے تو انگریز بھی بادشاہ۔ دیکھئے ہوتا کیا ہے۔ وزیر اعظم اپنی مرضی کے مالک ہیں اور میڈیا بھی۔ دونوں بادشاہ ہیں‘ اب دیکھئے ہوتا کیا ہے۔