ملالہ یوسف زئی کے پانچ سال بعد پاکستان واپس آنے پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر مختلف قسم کے تاثرات دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔ ملالہ کو کہیں پر قوم کی بیٹی کہا جا رہا ہے اور کہیں پر قوم کی دشمن کے نام سے یاد کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگ انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملالہ کو اسلام دشمن بھی قرار دے رہے ہیں۔
جہاں پاکستان میں بہت سے لوگ اس کے حق میں نظر آرہے ہیں وہاں بہت سے لوگ ملالہ کے خلاف کھڑے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پاکستان کی تمام ہائی کمانڈ نے ملالہ یوسف زئی کا بڑی خوش دلی سے استقبال کیا ہے کیونکہ وہ ہمارے ملک کی بیٹی ہے۔
میری اپنے ملک کی تمام ہائی کمانڈ سے گزارش ہے کہ میرا ملک ذہین اور تندرست نوجوان نسل کا ملک ہے۔ یہاں پر ایسے ایسے ہیرے پائے جاتے ہیں جن کو تلاش کرتے ہوئے دوسرے ملکوں کے لوگ آکر اٹھا لے جاتے ہیں۔ میری قوم اور میرے ملک کی ہائی کمانڈ یہ اس وقت نہیں سوچتی جب کسی ہیرے کو بغیر کسی قیمت دوسرے ملکوں کے لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور وہ اس کو اپنی مرضی کے مطابق تیار کرتے ہیں۔ جب وہی بچہ کامیابی کی منزلیں سر کرتا چلا جاتا ہے تو اس وقت ہم اس کے ساتھ لگا دیتے ہیں ’’پاکستانی نژاد‘‘ تاکہ ہمارا سر بھی تھوڑا سا فخر سے بلند ہوجائے جبکہ بات شرمندگی کی ہوتی ہے۔
میرے پاس علم غیب نہیں اور نہ ہی کوئی میرے پاس ایسا آلہ ہے جس سے میں یہ اپنی قوم کو بتاسکوں کہ ملالہ یوسف زئی کے مقاصد کیا ہیں اور وہ آنے والے وقت میں پاکستان میں کیا کرنے والی ہے۔ میں خود ایک ایسا بے بس انسان ہوں جسے نہیں معلوم کہ میں جو سانس لے رہا ہوں وہ بھی مکمل کر پاؤں گا کہ نہیں۔ میں کسی کے بارے میں کیا پیش گوئی کروں۔
البتہ مسلمان ہونے کے ناطے ایک بات ہے، جو کسی کے بارے میں اچھا سوچتے ہیں ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ بہتان تراشی سے روکا ہے اور ہمیشہ دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی تعلیم دی ہے جو ہم مکمل طور پر بھول چکے ہیں اور خود کو سب سے زیادہ عالم، ذہین اور نیک سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے کو حقیر، کمتر اور کند ذہن خیال کرتے ہیں۔
جب کسی کا اپنا دل کرے تو کسی ایسے مشہور غیر مسلم کی تصویر لگا کر یہ بات مشہور کردیتے ہیں کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے، جب کہ اس غیر مسلم کومعلوم نہیں ہوتا کہ اسلام ہے کیا؟ جب ہم فتوے لگانے پر آتے ہیں تو بڑے بڑے عالموں کو بھی کافر قرار دے دیتے ہیں اور اپنے گریبان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے کہ ہم کیا ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ اللہ ہم کو اس فتنے سے محفوظ رکھے( آمین)۔
اب تھوڑا سا تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔ قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے جب مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی تو ہندوستان میں بہت سی ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں کہ قائداعظمؒ مسلمان نہیں بلکہ انگریزوں کا ایک مہرہ ہے جو ان کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے۔ محمدعلی جناحؒ نے ساری زندگی برطانیہ میں گزاری ہے، انہیں اسلام کا کیا پتا اور یہ مسلمانوں کو الگ ملک کیسے حاصل کرکے دیں گے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ کون سچا تھا۔ قائداعظمؒ نے وہ کر دکھایا جو کسی کی سوچ بھی نہ تھی۔ فتوے لگانے والے منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔
جب بھٹو صاحب نے سیاست کا آغاز کیا تو بھٹو صاحب کے خلاف بہت سی عجیب و غریب باتیں سننے کو ملیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ کبھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو انڈین نواز کہا گیا تو کبھی ایران کے ساتھ ملایا گیا، کبھی ان کے کردار کو مسخ کیا گیا مگر جب وقت آیا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ دنیا کی سپر پاور امریکا کو بتایا کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم ہوں، جو بات کرنی ہے وہ ہمارے اصولوں پر کی جائے گی۔
ہمارے ملک میں جتنے بھی لیڈر آئے، سب کے سب باہر سے ہی تیار ہو کر آئے۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ پاکستان تشریف لائیں تو انہیں اردو تک بولنا نہیں آتی تھی۔ ایک جلسے میں محترمہ تقریر کر رہی تھیں تو اذان ہونے لگی۔ وہ مسلمان جو بعد میں محترمہ کے ان الفاظ پر فتوے لگاتے ہوئے نظر آئے جو اذان کے وقت شور کر رہے تھے کہ محترمہ نے (اپنے علم اور سوچ کے مطابق اذان کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے) لوگوں کو خاموش کرنے کےلیے کہا کہ اذان بج رہا ہے۔ آپ خاموش ہوجائیے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ محترمہ ایک محب وطن مسلمان خاتون تھی اور فتوے لگانے والے آخرکار محترمہ کے پیچھے کھڑے ہوئے نظر آئے۔
آج کے لیڈروں پر نظر ڈالی جائے تو کونسا ایسا لیڈر ہے جو باہر سے پڑھ کر نہیں آیا۔ عمران خان کی تعلیم بھی باہر کی ہے اور خان صاحب کے بارے میں لوگوں کے فتوے بھی پورے پاکستان کے سامنے ہیں۔ اب بلاول بھٹو زرداری صاحب کو ہی دیکھ لیجیے۔ بچپن سے لے کر محترمہ کی شہادت تک بلال بھٹو صاحب پاکستان نہیں آئے۔ ان کی ساری تربیت کہاں کی ہے؟ ان کو تو اردو زبان بھی مکمل طور پر نہیں آتی۔ یہ بات کونسا پاکستانی نہیں جانتا۔ اب اگر شریف فیملی کے بچوں کو دیکھا جائے تو وہ کہاں رہ رہے ہیں اور کہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ جب میاں صاحب کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا تو میاں صاحب کے بچوں کو پاکستان کی سر زمین پر دیکھنا نصیب ہوا۔ یہ ساری صورت حال دیکھ کر ہم کس کو محب وطن اور سچا مسلمان قرار دے سکتے ہیں؟
میری ان فتوے دینے والوں سے گزارش ہے کہ اگر ہم سب اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں تو ان شاء اللہ پاکستان کے تمام افراد خودبخود ٹھیک ہو جائیں گے۔
آج اگر ملالہ یوسف زئی آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کررہی ہے تو اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے؟ قدرت اس بچی سے کیا کام لینا چاہتی ہے، یہ سب میری سوچ سے بالاتر ہے مگر ایک بات حق ہے۔ وہ یہ کہ ملالہ یوسف زئی کا آئی کیو لیول عام بچوں سے بہت زیادہ ہائی ہے۔
بعض لوگوں کی سوچ ہے کہ ملالہ کو تیار کیا جارہا ہے۔ چلیے یہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ ملالہ کو تیار کیا جارہا ہے۔ تیار بھی وہی ہوتا ہے جس میں کوئی کوالٹی ہوتی ہے، ورنہ ایک کلاس میں ایک ساتھ پڑھنے والے بہت سے طالب علم ہوتے ہیں مگر کچھ ہوتے ہیں وہ لیکچر لیتے ہی سب کچھ یاد کر لیتے ہیں اور کچھ ہوتے ہیں کہ رٹہ لگانے کے باوجود بھی کچھ یاد نہیں کرپاتے۔
ہمارے سیاستدان اور لیڈران جو بچپن سے تیار ہوتے ہوئے آرہے ہیں، آج بھی جب یہ سیاستدان اور لیڈران تقریر یا انٹرویو دینے لگتے ہیں تو میں، میں، میں کرتے اور ہکلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نوبل پرائز اور مختلف ایوارڈز لیتے ہوئے ملالہ کی تقریروں، یورپ اور امریکا کے مختلف ٹی وی چینلز پر انٹرویوز نے ثابت کر دیا ہے کہ ملالہ کوئی عام بچی نہیں۔ اس کے بولنے کا اعتماد بہت زیادہ اور ملالہ کا ہر سوال کا جواب دینا، انگلش، اردو، پشتو کے ساتھ ساتھ اس عمر میں مختلف زبانوں پر عبور حاصل کرنا کوئی عام بات نہیں۔
باقی رہی بات اس کے مسلمان ہونے کی، تو یہ معاملہ رحیم و کریم اللہ اور ملالہ کا ہے۔ اگر ملالہ کسی فتنے کے طور پر سامنے آتی ہے تو پھر بھی قانونی طور پر وہ سزا کی حقدار ہے۔ اگر ملالہ پر امن اور قانون کے مطابق ہے تو پھر اس پر کسی قسم کے بہتان کی کوئی گنجائش نہیں، نہ اسلام میں اور نہ ہی کسی اور قانون میں۔ ہمیں اپنے ایمان کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے اور دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے اندر ایمان کی حرارت کو تلاش کرنا چاہیے۔ اللہ ہم سب مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائے، آمین۔