کوئٹہ: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ہم وہ قاضی اور جج ہیں جو اپنے فرائض قانون کےمطابق سرانجام دیتے ہیں اور ہم مرضی کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں۔
کوئٹہ میں تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ مقدمہ بازی معاشرے کی بیماری ہے، کسی بھی معاشرے میں انصاف ہونا ضروری ہے، بے انصافی پر مبنی معاشرہ نہیں چل سکتا، ہم نئی قانون سازی نہیں کرسکتے، ہم 1872 کے قانون کو تبدیل نہیں کرسکتے، ہمارے پاس طاقت نہیں کہ انگریزوں کے دور کے قوانین بدل سکیں، ہمیں انہیں قوانین پر کام کرناہے، وکلا اس عدالتی نظام کی بنیاد ہیں، ہم یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ انصاف فراہم کررہے ہیں۔ لوگ تیس تیس سال مقدمہ بازی میں پھسے رہتے ہیں،ان کا کیا قصور ہے، جس شخص کو 40سال تک انصاف نہیں ملتا وہ روزانہ مرتا ہے۔ ہم مقدمات کو اتنی طوالت کیوں دیتے ہیں، اس قانون پر ہی عمل کرلیں تو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ تسلیم کرتا ہوں کہ وسائل کم ہیں ، حکومت کی جانب سے وہ تعاون نہیں مل رہا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے جو معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے، ہم وہ قاضی اور جج ہیں جو اپنے فرائض قانون کےمطابق سرانجام دیتے ہیں، جج اور قاضی ہونا عزت کی بات ہے اس کو برقرار رکھنا چاہیے، مرضی کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں۔ ہم یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ انصاف فراہم کررہے ہیں۔ اگر ہم انصاف اورعدل کی بنیادوں کو مضبوط نہیں کرپائے تو اللہ کے سامنے کیسے سرخرو ہوں گے۔
ججز کو انصاف کی فراہمی میں شوق اور جذبے سے کام کرنا ہوگا، نچلی سطح پر فیصلہ درست ہونے پر اعلیٰ عدلیہ تک فیصلہ قائم رہے گا، میں محسوس کررہاہوں کہ ہم صلاحیتوں کو مطلوبہ معیار کے مطابق استعمال نہیں کررہے، پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں نہایت قابل ججز گزرےہیں ، ایسے ججز ہوتے تھے کہ ان کے فیصلے سپریم کورٹ آتے تو تبدیل نہ ہوتے لیکن اب حیران ہوں کہ وہ قابل ججز کہاں گئے جن کے فیصلے موتیوں سے لکھے جاتے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے گھر کو درست کریں، فیصلے میں قانونی سقم رہ جائے تو اس کی ذمہ داری ہماری بنتی ہے، کوئی بھی فیصلہ دینے کیلیے قانون اور آئین کا مکمل پتا ہونا چاہیے۔