لاہور(ویب ڈیسک)پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کی سینیٹ کے اجلاس میں شرکت پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس سے پہلے بھی وفاقی وزیر اطلاعات چیئرمین سینیٹ کے کہنے پر اپنے رویے پر معافی مانگ چکے ہیں لیکن اس بار انھوں نے سینیٹ میں معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ان کی اپنی جماعت بھی مطمئن نہیں ہے۔دوسری طرف وفاقی حکومت بھی اپنے ترجمان کے حق میں کھڑی ہو گئی ہے اور اُنھوں نے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ اس معاملے کو چیئرمین سینیٹ کے سامنے اُٹھائیں۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں شرکت پر پابندی کا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب دو روز قبل پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن مشاہداللہ خان نے حکومتی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر حکومتی بنچوں سے حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔بدھ کو جب سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا تو مشاہد اللہ خان نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی نشست پر جا کر ان سے ہاتھ ملایا۔ اس سے قبل بھی مشاہد اللہ خان اور فواد چوہدری کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا ہے تاہم چیئرمین سینیٹ اس میں بیچ بچاؤ کراتے رہے ہیں۔نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق مشاہد اللہ خان
ابھی اپنی نشست پر بھی نہیں بیٹھے تھے کہ فواد چوہدری نے نکتہ اعتراض پر حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عمثان کاکٹر کھڑے ہوئے اور اُنھوں نے وفاقی وزیر سے کہا کہ وہ حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اپنی کارکردگی بہتر کرنے کی کوشش کریں۔فواد چوہدری نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اُنھوں نے سابق حکومت میں اپنے بھائی کو بلوچستان کا گورنر بنوایا تھا جس پر ایوان میں شور شرابہ شروع ہو گیا۔سینیٹ کے چیئرمین نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات سے کہا کہ وہ ماحول خراب کرتے ہیں اور چیئرمین سینٹ نے وفاقی وزیر کا مائیک بند کر دیا لیکن اس کے باوجود فواد چوہدری بولتے رہے۔اس سے پہلے جمعرات کو چیئرمین سینیٹ کی طرف سے دی گئی رولنگ میں کہا گیا ہے کہ جب تک وفاقی وزیر اطلاعات اپنے رویے پر ایوان سے معافی نہیں مانگتے اس وقت تک ان کے ایوان بالا میں داخل ہونے پر پابندی رہے گی۔چیئرمین سینیٹ کی طرف سے دی گئی رولنگ میں کہا گیا ہے
کہ گذشتہ چند روز میں ایوان کا ماحول خراب ہو رہا ہے جبکہ یہ ایوان اعلیٰ ترین پارلیمانی روایات کا حامل رہا ہے۔اس رولنگ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سینیٹ کے ارکان پر لازم ہے کہ وہ پارلیمانی رویہ اختیار کریں۔حالیہ تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ کسی وفاقی وزیر پر سینیٹ کی کارروائی میں شرکت کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس سے پہلے سابق چیئرمین رضا ربانی نے سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے وفاقی وزیر خواجہ آصف پر بھی پابندی عائد کی تھی۔واضح رہے کہ گذشتہ روز بدھ کو بھی سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے حزب مخالف کی جماعتوں جن میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر حزب مخالف کی جماعتوں نے وفاقی وزیر کے اس رویے پر احتجاج کرتے ہوئے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔چیئرمین سینیٹ نے فواد چوہدری کو، جو کہ حکومت کے ترجمان بھی ہیں، مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایوان کا ماحول خراب کرتے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کے روکنے کے باوجود وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی تقریر جاری رکھی جس پر صادق سنجرانی نے ان کا مائیک بند کروا دیا۔جمعرات کو سینیٹ کے چیئرمین اور سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز اپوزیشن کے ارکان کو منا کر لائے۔حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان نے اس شرط پر ایوان میں آنے کی حامی بھری کہ وزیر اطلاعات ایوان سے اپنے رویے پر معافی مانگیں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شیری رحمان نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر کے رویے سے نہ صرف اس ایوان کے ارکان بلکہ سینیٹ کے چیئرمین کا تقدس بھی پامال ہوتا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ وفاقی وزراء نے حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے چور ڈاکو کے نعرے لگانا شروع کردیے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ حزب مخالف کی جماعتیں اس طرح ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گی۔یاد رہے کہ سینیٹ میں حزب مخالف کی جماعتوں کو اکثریت حاصل ہے جبکہ حکمراں جماعت کو سینیٹ میں عددی برتری حاصل نہیں ہے۔