کچھ اگر نیا ہے تو بس یہ کہ جو راز پہلے ہر ماجھا ساجھا غیر رسمی طور پر جانتا تھا اب سابق صدر جنرل (ان ریٹائرڈ ) پرویز مشرف نے اس کی باضابطہ تصدیق کردی ہے۔ یعنی انہیں عدالتی چنگل سے نکال کر ملک سے باہر بھجوانے میں سابق سپاہ سالار راحیل شریف نے مدد کی۔
مگر ہم جیسے دیشوں میں مقدماتی رعایت لینے کے لیے جنرل ہونا ہرگز ہرگز ضروری نہیں۔ کیپٹن حماد ( سوئی ریپ کیس فیم ) ہونا ہی کافی ہے۔ اور یہ بھی لازمی نہیں کہ آپ حاضر سروس ہی ہوں ۔این ایل سی میں کروڑوں کے گھپلے میں ملوث ریٹائرڈ جرنیلوں کو دوبارہ داخلِ سروس کر کے معاملہ گھر کے اندر سلٹانا بھی ممکن ہے۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ کا کوئی عسکری پس منظر ہی ہو۔ خوش قسمتی سے اگر آپ از قسمِ ریمنڈ ڈیوس امریکی شہری ہوں تو بھی آپ کو ظلِ الہی پردے کے پیچھے بیٹھ کر پورے عدالتی لوازمات کی تکمیل کے ساتھ اپنے سائے میں طیارے پر چڑھوا سکتے ہیں۔
اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ امریکی شہری ہی ہوں۔آپ کا شکیل آفریدی ہونا بھی کافی ہے۔آپ دیکھیں گے کہ ٹرمپ حکومت کو اپنے اخلاص اور جذبہِ خیر سگالی کا یقین دلانے کے لئے شکیل آفریدی نامی فاختہ کسی نہ کسی دن آزاد فضاؤں میں اڑ رہی ہو گی ۔وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر طارق فاطمی کی اس بات کو لائٹلی مت لیجیے گا کہ شکیل آفریدی کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بذریعہ عدالت صدرِ مملکت کے پاس ہے۔
ہاں یہ درست ہے کہ جنرل مشرف پر آئین سے غداری کے آرٹیکل چھ کی پامالی کا مقدمہ چل رہا ہے، ان پر غازی عبدالرشید قتل کیس چل رہا ہے، ان پر عائد اکبر بگٹی قتل کیس اور بے نظیر قتل کیس ابھی حتمی فیصلے کی منزل سے دور ہیں۔وہ ایک سے زائد عدالتوں کی جانب سے اشتہاری بھی قرار پا چکے ہیں۔
مگر یہ کوئی معجزہ نہیں کہ پرویز مشرف ای سی ایل میں ہونے کے باوجود چوہدری نثار علی خان جیسے اصول پرست وزیر کے ہوتے ہوئے بیرونِ ملک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بغرض علاج مقیم ہیں۔ویسے علاج کی انہیں زیادہ ضرورت ہے جنہوں نے پرویز مشرف کو کسی بھی مقدمے میں سزا دلوانے کا خواب دیکھا تھا۔( ایان علی کیس نے واقعی بڑے بڑوں کا دماغ خراب کر دیا تھا)۔
یہ تو مشرف صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے بیماری کی وجہ کو پردہ بنا کر سویلینز کی بے بسی کا پردہ رکھا ہوا ہے ۔ورنہ تو یحیٰی خان یہ کہتے کہتے قومی پرچم میں لپٹ کر پورے اعزاز کے ساتھ رخصت ہو گئے کہ ‘آؤ میرا کورٹ مارشل کرو ، مجھے دو سزا۔۔۔۔’
اور کسی سے نہیں میری مشرف صاحب سے اپیل ہے کہ مائی باپ آپ کو غریبوں اور کمزوروں اور ادھ موؤوں اور غیر برہمن زاد مسکینوں پر نمکین فقرے اچھال کے کیا مل رہا ہے ۔اب جانے بھی دیجئے اور اپنی بیماری چاہے تو اندرونِ ملک انجوائے کیجئے یا پھر بیرون ِ ملک ۔۔
یہ تیری سرزمیں ہے قدم ناز سے اٹھا۔
ہاں آپ بادشاہ تھے، ہیں اور رہیں گے۔مگر خود سے بار بار جتانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم تابعدار مر گئے ہیں کیا؟
آئندہ اگر آپ کا سویلینز کو منہ چڑانے کا بہت ہی جی چاہ رہا ہو تو سلیم احمد کا یہ شعر پڑھنا کافی رہے گا۔
زور وہ اور ہے پاتا ہے بدن جس سے نمو
لاکھ کودے کوئی ٹانگوں میں دبا کر موصل