پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حسین نواز نے رقم والد کوتحفہ دی، والد نے تحفے کی رقم سے بیٹی کو تحفہ دیا، بیٹی نے تحفے کی رقم سے والد کی جائیداد خریدی، کیا مخدوم علی خان صاحب آپ کہہ رہے ہیں ایسے رقم والد کےاکاؤنٹ میں ڈالی گئی، فارسی نہیں بول رہے، مالیاتی ریکارڈ بتائیں۔ہوسکتا ہے رقم غیر قانونی طریقے سے بیٹے کو منتقل کی گئی ہو، یہ بھی ہوسکتا ہے یہ کالا دھن ہو ۔
وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہپراپرٹی کا سارا ریکارڈ موجود ہے، لندن کے فلیٹوں کا مکمل ریکارڈ کل پیش کردیں گے۔پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کرنے والےپانچ رکنی لاجر بینچ کے روبرو وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے مریم نواز کی کفالت اورٹیکسوں کے حوالے سے اپنے دلائل جاری رکھے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم نواز اپنے والد کے زیر کفالت نہیں، وزیر اعظم نے مریم نواز کو تحائف بینکوں کے ذریعے دئیے، وزیر اعظم پر ٹیکس چوری کا الزام غلط ہے ،تمام بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز پر الزام لگایا گیا کہ ٹیکس نہیں دیتے،حسین نواز کا نیشنل ٹیکس نمبر بھی موجود ہے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ الزام ہے کہ آمدن کو تحائف ظاہر کرکے ٹیکس چھپایا گیا ہے، تحائف کو اسی صورت آمدن تصور کیا جائے گا جب یہ کسی ایسے شخص کی جانب ہو جس کا ٹیکس نمبر نہ ہو ، تحائف کا ذکر وزیر اعظم کے گوشواروں میں موجودہے۔بینک کی تفصیلات مخفی رکھنے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے لیکن وزیر اعظم نے عدالت سے کچھ نہیں چھپایا، جس کی تصدیق کروائی جا سکتی ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا طویل عرصہ ملک سے باہر ہونے پر این ٹی این کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ انسان زندہ نہ رہے تو بھی این ٹی این برقرار رہتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیس کا ایک حصہ منی لانڈرنک سے متعلق ہے ،رقوم کی منتقلی کے حوالےسے آپ کو تفصیلات دینا ہوں گی۔
خدوم علی خان نے کہا پہلا سوال یہ ہے کیا پاکستان سے کوئی رقم باہر گئی؟
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس معاملے کی پہلے بھی تحقیقات ہو چکی ہیں اور بعض افراد کے نام بھی سامنے آئے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا اسحاق ڈار کا اعترافی بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں کئی لوگوں کے نام بھی تھے تاہم تکنیکی بنیادوں پر منی لانڈرنگ والی تحقیقات مسترد ہوئیں اور نیب نے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی۔مخدوم علی خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ تحقیقات میں نامزد ملزمان کو شامل نہیں کیا گیا۔
جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے،بلیک منی وائٹ کرنے کے لیے وہی رقم واپس پاکستان بھجوائی جاتی ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے وضاحت کی کہ بلیک منی وائٹ کرنے والی بات نواز شریف کے حوالے سے نہیں کی۔اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ درخواست گزار نے خود تحقیقات کا مطالبہ کیا، تحقیقات سے قبل آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی کیسے ہو سکتی ہے؟وزیر اعظم کے وکیل نے کہاکہ ٹیکس فارم میں متعلقہ کالم نہ ہونے کے باعث مریم نواز کا نام زیر کفالت کے خانے میں لکھا گیا۔
جسٹس گلزاراحمد نے استفسار کیا کہ ٹیکس فارم میں ترمیم2015 میں ہوئی، پانامہ کب سامنے آیا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا پانامہ کا معاملہ اپریل2016 میں سامنے آیا، فارم میں ترمیم اس سے پہلے ہو چکی تھی۔اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے ٹیکس گوشوارے میں کالم نہ ہونے کے باوجود مریم کے نام ہر زمین کو ظاہر کیا اور یہ وزیر اعظم کی نیک نیتی ہے۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔
شریف فیملی کے تحائف کے معاملے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے پوچھا مخدوم علی خان آپ کہہ رہے ہیں کہ حسین نواز نے رقم اپنے والد کو بطور تحفہ بھجوائی، والد نے تحفے کی رقم سے بیٹی کو تحفہ دیا، بیٹی نے تحفے کی رقم سے والد کے لیے جائیداد خریدی، اس طرح رقم والد کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی گئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چار سال میں حسین نواز نے والد کو 52 کروڑ روپے تحفہ دیے، اس سے تاثر ملتا ہے کہ رقم گردش کر رہی ہے،ہم رقم کا سورس جاننا چاہتے ہیں؟ اتنی بڑی رقوم کہاں سے آ رہی ہیں؟
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ فارسی نہیں بول رہے، مالی سالوں کا ریکارڈ بتائیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے مخدوم علی کان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو پیسے دیتے ہیں لیکن آپ کے کیس میں مختلف ہو رہا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہ کہ تحفے میں کوئی گھڑی نہیں دی گئی ہر بار رقم دی گئی، ہو سکتا ہے امیروں کے تحفے ایسے ہی ہوتے ہوں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کسی نہ کسی نے تو رقم کا جواب دینا ہے، ریکارڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں سے آمدن نہیں ہوئی۔مخدوم علی خان نے کہا کہ بیٹوں کا کاروبار ہے جس سے رقم آ رہی ہے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ اس رقم کو تحفے میں دینے کی کیا وجوہات ہیں؟ حسین نواز نے ہر بار صرف والد کو ہی کیوں تحائف دیے؟
جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ اتنا پیسہ کس کاروبار سے آ رہا ہے؟ کیا کبھی والد نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ اتنا پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم اپنے بچوں کے کاروبار سے آگاہ ہیں۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا جس سے حقائق معلوم ہوں،کوئی فریق بھی نہیں چاہتا کہ سراغ ملے، ہم کیا کر سکتے ہیں؟جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا وزیر اعظم نے کبھی کہا ہے کہ فلیٹ بچوں کے ہیں؟اس پر وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم کسی فلیٹ اور آف شور کمپنی کے مالک ہیں نہ ہی حصہ دار۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کسی فیصلے پر نہیں پہنچے، سوالات اٹھا کر کیس واضح کر رہے ہیں۔مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ جس ایک جائیداد پر سوال اٹھ رہا ہے اس کے کاغذات کل عدالت میں پیش کروں گا۔جسٹس آصف کھوسہ نے مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ نواز شریف کی تقاریر اور عدالت میں اٹھائے گئے موقف میں تضادپرکل وضاحت دیں۔جماعت اسلامی کی وزیر اعظم کی نا اہلی کی درخواست پر سماعت وزیر اعظم سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیےگئے۔ کیس کی مزید سماعت جمعرات کی صبح ہو گی۔