مزاحمت کسی نہ کسی سطح پر ضروری ہے، وہ مزاحمت عمل سے بھی ہو سکتی ہے اور وہ مزاحمت محض خیال یا عقیدے سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ آدمی کے عزم و حوصلہ پر منحصر ہے، اگر ظلم کوئی شخص بہت آسانی سے اور بہت خاموشی سے، آسانی نہ کہتے بلکہ خاموشی سے سہہ لیتا ہے تو وہ خود بھی ظالم ہے، وہ ظلم کا حصّہ بن جاتا ہے، لوگ ظلم کر رہے ہیں اور بعض ظلم سہہ رہے ہیں تو جو ظلم سہہ رہے ہیں وہ بھی ایک مرحلے پر اتنے ہی قابل مذمت ہو سکتے ہیں جتنے ظلم کرنے والے…اس لئے ظلم اگر آپ سہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ظلم کو پنپنے کا موقع دے رہے ہیں۔ میں نے کسی موقع پر کہا تھا:
بہت کچھ دوستو بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے
فقط اک خنجر دست جفا سے کچھ نہیں ہوتا
آج مزاحمت کے معنیٰ بدل گئے ہیں یا بدل دیئے گئے ہیں۔ میں مانتا ہوں زودگوئی اپنے آپ میں ایک وصف احسن ہے مگر بسیارگوئی، بسیارخوری کی طرح غیر مستحق نہیں بلکہ معیوب عمل سمجھا جاتا ہے۔ علی جعفر زیدی کی آمد میں دیر تو ہوئی لیکن ایک اچھا کام ضرور ہو گیا، جعفر زیدی کا یہ قرض اور فرض تھا جو ادا ہو گیا۔ فرض ادا نہ ہوا اس سمت میں ایک اچھی کوشش ہوئی کہ ابھی بہت سی باتیں بہت سے قصّے ان پر فرض ہیں۔ ان کی زندگی کا پورا قصّہ ان کے گردوپیش کی اجتماعی زندگی سے مربوط رہا ہے، خاص طور پر پاکستانیوں کی ذہنی، جذباتی، سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی صورتحال سے وابستہ سوالوں کی گونج میں جعفر زیدی نے اک عمر بسر کی ہے، اس کی شخصیت کے گرد مجھے ہمیشہ علم آمیز دائرے کی موجودگی کا احساس ہوا ہے۔ وہ اس سوچ کے دائرے میں خواہ یہ سوچ حقیقی یا فرضی ہو کسی کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔ شاید اپنے آپ سے بھی بے تکلّف نہیں، اس کی سوچ ہمیشہ اس کے ساتھ لگی رہی ہے جبکہ حقائق اس کی سوچ سے ادھر ادھر بھی ہوتے رہے ہیں، کہیں الگ الگ سے اور کہیں دور دور رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کتاب ’’باہر جنگل اندر آگ‘‘ میں مجھے کچھ خامیوں کا احساس بھی ہو رہا ہے اور میرے حساب سے اگر ان پر نظرثانی کی جائے تو بہتر صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اگرچہ اس کی ضرورت وہ خود بھی محسوس کرتے ہیں۔ جعفر زیدی نے اس کتاب میں ان دوستوں اور افراد جن سے وہ براہ راست متعلق رہے ہیں کا ذکر کیا ہے۔ ان سے میں بھی بہ خوبی واقف ہوں۔ ان افراد سے قربت کے باوجود میں ان لوگوں سے کچھ الگ الگ اور دور دور سا رہا ہوں۔ ان ’’برگزیدہ‘‘ اصحاب جنہیں کسی بھی معقول شخص کی تائید حاصل نہ ہو سکی تھی، کا ذکر میرے لئے اور میرے جیسے سیاسی کارکنوں کیلئے افسردگی اور ملال کا باعث رہا ہے۔ پاکستان اور پاکستانی سیاست نے جو سلوک علی جعفر زیدی کے ساتھ کیا ہے اس کی تفصیل سب کے سامنے ہے اور اس پر گزرے ہوئے وقت کی گرد بیٹھ چکی ہے۔ ترقی پسند معاشرے و سماج کے قیام اور تعمیر میں جو رول جعفر زیدی نے ادا کیا ہے ایسا نہیں کہ اسے بھلا دیا جائے یا بھلایا جا سکتا ہے۔ اپنے خاص انداز اور طرزکلام میں عمر بھر (آج بھی) ترقی پسند سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔ میرے حساب سے دانشور اور فنکار کو جو کچھ ملنا چاہئے وہ آج تک اسے کوئی نہیں دے سکا۔ آج سیاست اور سیاستدان پر جاہل واہ واہ کر رہے ہیں اور پڑھا لکھا خاموش اور لاتعلق ہو کر بیٹھ رہا ہے۔ جعفر زیدی نے اپنی کتاب ’’باہر جنگل اندر آگ‘‘ میں سیاست کو راستہ دکھایا ہے، کبھی جگنو کبھی ستارہ کبھی نغمہ بن کر۔ اس کی کتاب میں حکایتوں کی سادہ بیانی اور شکایتوں کا معصومانہ انداز اندر سے بہت مختلف ہے۔ یہ اپنی سنجیدہ مزاجی، بے نیازی کی وجہ سے سیاست میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ صلے اور ستائش سے بے پروا ہے، یہ ان تمام چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہت دور ہے اس لئے بہت برا ہے۔ اس کی کتاب پڑھتے ہوئے سیاست کے قاری کو نشاط مطالعہ کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ یہ محض آج کا سیاسی منظرنامہ ہی نہیں بلکہ دور گزشتہ کی ایک یادگار تصویر بھی دکھاتی ہے اور کچھ ایسی سیاسی شخصیات سے ہمیں ملاتی ہے جنہیں ہم بھول چکے ہیں یا جو مر چکے ہیں اور اب انہیں دفنانا باقی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کوئی معمولی موضوع نہیں ہے، اس کیلئے عملی سیاست کرنی ہوتی ہے۔ 712صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جعفر زیدی نے پاکستان کی گھسی پٹی خارجہ پالیسی کا بھی بھرپور جائزہ لیا ہے جہاں اس کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہی بنتی ہے۔ یہ کتاب جہاں جعفر زیدی کی اپنی شخصیت اور سیاسی خدمات پر مسوط ہے وہاں پاک و ہند کے ممتاز سیاستدان، دانشور حضرات کی حیات و سیاسی خدمات کے تعلق سے اپنے تاثّرات پیش کئے گئے ہیں۔ پیش لفظ میں علی جعفر زیدی یوں رقم طراز ہیں:’’ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کے عوام مایوسی، غربت و افلاس کے اندھیرے جنگلوں میں بھٹک رہے ہیں، کئی دہائیوں سے بے چراغ راستوں میں جدوجہد کرنے والے بچے کھچے دیانت دار سیاسی کارکنوں کی کھنڈر آنکھوں میں غم آباد ہیں اور بقول محسن نقوی:
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو جلا کر
ایک بار پھر سحر کو مقدر بنانے کیلئے چراغ جلانے کی ضرورت ہے۔‘‘ اس شعر کا جواب میں نے محسن نقوی کی حیات میں ہی اسے دے دیا تھا تاہم آج پھر سے عرض کرتا ہوں:
یہ بھی نہیں کہ اپنا مقدر ہیں اندھیرے
گھر میں چراغ ہو تو کوئی روشنی کرے
یہاں میں یہ بات بھی کہتا چلوں کہ جعفر زیدی کی بہت ساری خوبیوں کا ذکر یہاں ممکن نہیں، بس یہ کہوں گا کہ اس کی گفتگو ہو یا تحریر دونوں میں اخلاص و محبت کی زیریں لہریں ہمیشہ مؤجزن رہتی ہیں۔ اس کی زندگی ان اوصاف اور اقدار پر کھری اترتی ہے جو ہماری صدیوں پرانی تہذیب کی شناخت رہی ہے، وہ نہ صرف تہذیبی اور سیاسی اقدار کا علم بردار ہے بلکہ اس کا رمز شناس بھی ہے۔ اس کی شخصیت اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس نے زندگی میں جو سوچا ہو گا، دیکھا، پایا، سنا، چاہا وہ اپنے حساب سے لوٹا دیا۔ اس نے آہستہ روی سے ہی سہی وہ سب کچھ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ آج جب اقدار نہیں اقتدار کا زمانہ ہے، اقدار شناسی کا جو تقاضا ہے اسے علی جعفر زیدی جیسے لوگ بہ حسن و خوبی پورا کر رہے ہیں۔
اب ترا نام بتانا نہیں پڑتا سب کو
لوگ کہتے ہیں ہاں ہاں، وہی، اچھا اچھا
بشکریہ جنگ