القدس میں خون مسلم کی ندیاں بہہ نکلیں، اس پر اسلامی کانفرنس کا ایک اجلاس ترکی میں منعقد ہوا جس نے شلجموں سے مٹی جھاڑنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کسی جوگی نہیں رہی، وہ زمانہ لد گیا جب مراکش میں اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں مسجد اقصی کی آتش زنی پر غور کرنے کے لئے بھارتی وزیر خارجہ کو بھی مدعو کر لیا گیا ، اس پر جنرل یحییٰ خان، ہاں جنرل یحییٰ خاں نے جنہیں آپ ہزاروں گالیاں نکال سکتے ہیں کہا کہ پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے، انہوںنے او آئی سی کی تنظیم سے کہا کہ اگر بیت المقدس کی حفاظت ایک غیر مسلم نے کرنی ہے تو وہ اپنے وفد کے ساتھ واپس پاکستان جا رہے ہیں ۔ یہ خالی خولی دھمکی نہ تھی، انہوں نے اپنا سامان پیک کرنا شروع کر دیا تھا ، جہاز کے ا نجن بھی اسٹارٹ کر دیئے گئے تھے کہ او آئی سی نے گھٹنے ٹیک دیئے اور بھارتی مندوب کو یک بینی و دو گوش اجلاس سے نکال دیا گیا۔ آج اس قدر حمیت ا ور غیرت کسی مسلمان حکمران میں ہوتی تو اسرائیلیوں کو ساٹھ لاشیں گرانے کی ہمت ہی نہ ہوتی البتہ مجھے اس امر پر حیرت ہے کہ جو تقریر اردوان صاحب کو او آئی سی کے اجلاس میںکرنا چاہئے تھی، وہ انہوںنے سڑکوں پر نکلنے والے ایک جلوس کے سامنے کی ا ور کہا کہ اگر آج ہم بیت المقدس کی حفاظت نہیں کر سکتے تو کل کو مدینہ کی حفاظت نہیں کر سکتے اور اگر مدینہ کی حفاظت نہ کر سکے تو کعبہ کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔
اردوان صاحب نہیں جانتے کہ انہیں کعبہ کی حفاظت کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ جس کا گھر ہے ، وہ جانے ، آپ اس قدر کیوں جذباتی خطاب فرما رہے ہیں، آپ اپنی حفاظت کی فکر کریں اورا ٓپ نے حالیہ فوجی بغاوت کے دوران ثابت کر دیا کہ آپ اپنی حفاظت کر سکتے ہیں، آ پ کے پیرو کار ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور انہوںنے اپنی ہی فوج کے افسروں کو سڑکوں پر ننگا کیا اور انہی کی بیلٹ سے ان کی ننگی پیٹھ پر درے برسائے۔ اور مہذب جمہوری دنیا سے واہ واہ وصول کی۔ اردوان صاحب !آپ اپنے ہمسائے شام کے خلاف بھی اندھا دھند فضائی حملے کر سکتے ہیں ، آپ کے ٹینک شامی علاقوں پر گولے برسا سکتے ہیں اور اس بمباری اور گولہ باری سے بچنے کے لئے جو شامی اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں آپ ان کی خدمت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔آپ ا س بات پر بھی قادر ہیں کہ پاکستان میں گولن کے اسکولوں کو بند کروا دیں اور ان کے اسٹاف کی چھٹی کروا دیں اور جسے نشان زد کریں وہ پنجرے میں بند کرکے آپ کی جیلوں میںپہنچا دیا جاتا ہے مگر اردوان صاحب! اسرائیل اورا سکے مربی اور پشت پناہ امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے محمد بن قاسم ، صلاح الدیں ایوبی، طارق بن زیاد، عقبہ بن نافع اورخالد بن و لید کا سادل جگرا چاہئے۔ اور نہیں تو کسی لیاقت علی خان کا مکہ چاہیئے جوانہوںنے بھارت کے سامنے لہرایا تھا۔باتیں کرنے میں تو آپ کا بھی کوئی ثانی نہیں ، آپ نے کہا کہ ہماری مسجدوں کے مینار دشمنوں کے لئے میزائل ہیں اور ہمارے گنبد ہمارے دفاعی مورچے ہیں مگر یہ سب کچھ آپ کے ذاتی اقتدار کی سیکورٹی کے لئے تو استعمال ہو سکتا ہے، مسلمانوں کے کسی مشترکہ دشمن کے خلاف آپ نے کبھی ایک تیر تک نہیں چلایا۔ ارض فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو سو برس سے اوپر ہو چلے ہیںا ور ارض کشمیر پر ہندو جنونیوں کے قبضے کو اکہتر برس ہو چلے ہیں، برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی داستان بھی کئی عشروں پر محیط ہے۔ دنیا میں اکادکا مسلمانوں پر حملے بھی عام ہیں جبکہ امریکی قانون یہ ہے کہ کسی ایک امریکی کی جان کسی ملک میں ناحق چلی جائے تو امریکہ اسے اپنادشمن قرار دیتا ہے اور انتقام کی آگ بجھائے بغیر اسے چین نہیں آتا، نائن الیون میں اس کی سرزمیں پر تین ہزار لوگ مرے ،ان کابدلہ لینے کے لئے امریکہ اور اس کے حواریوںنے جن میں ترکی بھی شامل ہے، عراق، افغانستان اور پاکستان میں کئی لاکھ لوگ مار ڈالے ہیں۔ہم انہیں شہید کہہ کر مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، ہمارے ایک سپاہ سالار نے کہا کہ پاکستان کولڈ اسٹارٹ اور ہاٹ اسٹارٹ دونوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے، یہ کہہ کر وہ سعودی عرب چلے گئے اور مسلمانوں کی ایک متحدہ کمان کے سپاہ سالار بن گئے ، جسکے بعد سعودی عرب ا ور اسرائیل کے تعلقات میں قربت آ گئی۔ اب یہ فوج اسرائیل کے سامنے تو نہیں جھونکی جا سکتی، کہیں سے کوئی اور خلائی مخلوق در آمددکرنی پڑے گی۔میں ترکی کے صدر جناب طیب اردوان کی بے حد عزت کرتا ہوں ، وہ پاکستان کے دوست ہیں اور پاکستان ان کا احسان مند ہے ، لاہور کی گلیوں سے کچرا بھی ترکی کی مدد سے صاف کیا جاتا ہے۔ اردوان نے اپنے عوام کی بے انتہا خدمت کی ہے، روہنگیا کے مہاجروں کی دستگیری میں بھی وہ پیچھے نہیں رہے مگر اسرائیل کے قبضے سے بیت المقدس کی بازیابی ، مدینے اور مکے کا دفاع اور چیز ہے ، اس کے لئے ہمیں ایک بار پھر کسی خالد بن ولید ، کسی طارق بن زیاد، کسی محمد بن قاسم کی ضرورت ہے کسی امیرا لبحر باربروسہ کی ضرورت ہے۔
وائے حسرت! مسلم امہ آج لیڈرشپ سے محروم ہے۔ اپنی اپنی جگہ ہر مسلم حکمران شیر ہے، مگر ان میں یک جہتی کا فقدان ہے، اتحاد کا فقدان ہے جس کا فائدہ امریکہ اور اسرائیل اور بھارت تینوں اٹھا رہے ہیں اور مسلمانوں کو بے دریغ مار رہے ہیں۔ کیا باقی رہ گیا ہے فلسطین کا، کیا بچاہے کشمیر کا اور کیا رہ جاے گا روہنگیا کا ۔کیا سلوک کیا جا رہا ہے بھارت میں مسلمانوں سے
جس دن چاہے گائے ذبح کرنے کے الزام میں انہیں چھری گھونپ دی جاتی ہے۔ تازہ ترین سانحہ تین روز پہلے ہوا۔
ہم مسلمان کسی قابل نہیں رہ گئے۔ کسی نہ کسی کا دم چھلہ بنے ہوئے ہیں۔اللہ کو ا پنے گھر کی حفاظت کے لئے ہم جیسے خود غرض۔ حرص کے بندوں اور مفاد کے مارے لشکروں کی ضروت نہیں۔ کعبہ پر تاریخ میں حملے بہت ہوئے مگر کوئی اس پر قبضہ نہیں کر سکا۔ ا یک بار یمن کا ابرہہ ہاتھیوں کا لشکر لے کر خانہ کعبہ پر چڑھ دوڑا تھا۔مکے کے سردار سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کیسے بچاﺅ کریں ، اچانک عبدالمطلب نے سر اوپراٹھایا اور کہنے لگے یہ جس کا گھر ہے وہ ا سکی حفاظت کا بندو بست کر لے گا اہم لوگ مکہ سے سازو سامان ا ور اونٹ لے کر نکل جاتے ہیں اور اپنی خیر مناتے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے اپنے گھر کی کیسے حفاظت کی۔
اردوان صاحب سے میں ایک بھیک مانگتا ہوں اور وہ ہے پاکستان کی سکیورٹی، ترک افواج نیٹو کے اتحادی کی حیثیت سے افغانستان میں پاکستان کے خلاف مورچہ زن ہیں ،۔ خدا را ! اس ترک فوج کو واپس بلا لیا جائے تاکہ پاکستان ایک مسلم اور دوست ملک کی فوج کا نشانہ تو نہ بنے۔