لاہور: جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں تو صدارتی انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا وقت ختم ہونے کو ہے۔ اعتزاز احسن کے کاغذات جمع ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمن کے کاغذات نامزدگی کچھ دیر میں داخل کر دیے جائیں گے۔ 4 ستمبر کو تحریک انصاف کے
نامور کالم نگار وجاہت مسعود اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ امیدوار ڈاکٹر عارف علوی صدر پاکستان کا انتخاب جیت جائیں گے۔ آنے والا مؤرخ اس بارے میں قلم اٹھائے گا تو اسے دسمبر 1988ء ضرور یاد آئے گا۔ آمریت کے خلاف گیارہ سالہ جاں گسل جدوجہد کے بعد جمہوری قوتوں کو صدر منتخب کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ قابل صد احترام نوابزادہ نصراللہ خان صرف 91 ووٹ حاصل کر سکے کیونکہ خارجہ، خزانہ اور دفاع کی وزارتیں دان کر کے وزیراعظم بننے والی محترمہ بینظیر بھٹو نے صدر پاکستان کے لیے غلام اسحاق خان کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ آئندہ دس برس کے لیے دور فاصلاتی حکومت، آئین کی دفعہ 58 ٹو (بی) اور جمہوری حکومتوں کی بے دست و پائی پہ منتج ہوا۔ ٹھیک تیس برس بعد آصف علی زرداری اسی غلطی کا اعادہ کر رہے ہیں۔ احتساب کے نام پر مقبول سیاسی قیادت کی تذلیل اس ملک میں نئی روایت نہیں۔ خود آصف علی زرداری گیارہ برس تک قید و بند کی صعوبت جھیل چکے ہیں۔ باخبر مبصرین کہتے ہیں کہ نیب کے مقدمات کی تلوار تو عذر لنگ سے زیادہ نہیں۔ اگر اختر مینگل برسوں قید رہ سکتے ہیں، نواز شریف اور انکے رفقا پابند سلاسل ہیں تو مرد حر کہلانے والے آصف علی زرداری کی طرف سے کمزوری دکھانا باور نہیں ہوتا۔
اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت بلاشرکت غیرے پیپلز پارٹی کو مل چکی۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی بڑھ چکی۔ آصف علی زرداری کے پیش نظر ٹھیک وہی محرکات ہیں جو تین دہائیاں قبل محترمہ بینظیر بھٹو کو درپیش تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت 28 اپریل 1977ء کو قومی اسمبلی کے فلور پر ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر بھول رہی ہے جس میں شہید رہنما نے ’ہاتھی کی یادداشت‘ کا ذکر کیا تھا۔ صدارتی امیدوار پر اتفاق رائے میں حزب اختلاف کی ناکامی کا کانٹا بہت دیر تک پاکستان کے جسد جمہوری میں پیوست رہے گا۔ زرداری صاحب نے رضاربانی کو سینٹ کا چیئرمین نامزد نہیں کیا ، صادق سنجرانی کو قبول کر لیا۔ یوسف رضا گیلانی، تاج حیدر، فرحت اللہ بابر، رضا ربانی اور قمر زمان کائرہ جیسے رہنمائوں کی موجودگی میں اعتزاز احسن کو ناگزیر قرار دینا محض تاریخ کو غبار آلود کرنا ہے۔ اس مرحلے پر بوئے گئے کانٹے آئندہ برسوں میں بلاول بھٹو کو اپنی پلکوں سے چننا پڑیں گے۔عمران خان کو حلف اٹھائے دس روز گزر گئے۔ کسی حکومت کی کارکردگی کو پرکھنے کے لیے یہ مدت کافی نہیں۔ تاہم قومی انتخابات کے روز ایک فیصد پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کو موقر ٹرینڈ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے
تو دس روز کے واقعات کی بنا پر کچھ رجحانات کی پیش بینی بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ واضح ہو رہا ہے کہ قومی تعمیر کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے پاس کوئی متعین لائحہ عمل نہیں چنانچہ احتساب کا ڈھول زور و شور سے پیٹا جائے گا۔ وقفے وقفے سے مالی بدعنوانی کے معاملات سامنے لائے جائیں گے۔ سیاسی رہنما تو تعذیب کا نشانہ بنیں گے سرکاری اہلکار بھی اس مہم کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ نتیجہ یہ کہ حکومت اور مستقل انتظامیہ کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ دوسرا رجحان سادگی کا ناٹک ہو گا۔ سادگی، کفایت شعاری نیز پروٹوکول سے نفور کا یہ غلغلہ ہمارے لیے نیا نہیں۔ یحییٰ خان بطور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کےلئے بڑھ رہے تھے کہ رک کر اخبار نویسوں اور واحد ٹیلی وژن کیمرے کی طرف دیکھا اور غصے سے فرمایا۔ ’یہ سب مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔ میں سیدھا سادا سولجر ہوں‘۔یہ سادگی پسند درویش ایوان صدر سے رخصت ہوا تو قوم کا ہر پہلو ندامت آلود ہو چکا تھا۔ بھٹو صاحب کی حکومت میں بھی انقلابی ظواہر پسندی کا شور بلند ہوا۔ حیات محمد شیرپائو نے گورنر ہائوس پشاور کے دروازے کھولنے کا حکم جاری کر دیا۔
پھر لوگوں نے دیکھا کہ ہجوم کی دھکم پیل میں عوامی گورنر شیرپائو جوتے چھوڑ کر گورنر ہائوس کے اندر بھاگ گئے۔ نومبر 1979ء میں جنرل ضیاالحق نے سائیکل چلا کر سادگی کا شوق پورا کیا تھا۔ محمد خان جونیجو نے بھی سادگی کی مہم چلائی تھی۔ راقم کو پنجاب اسمبلی کے باہر رکشے سے برآمد ہوتی محترمہ بشریٰ رحمن کا ہیولا یاد ہے۔ بعد کے برسوں میں بشریٰ رحمن کو پھر کبھی رکشے کی سواری کرتے نہیں دیکھا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جاری ادائیگیوں کے توازن، تجارت کا خسارہ اور جہازی حجم کا غیر ملکی قرضہ جیسے مسائل چائے کی پیالیوں اور بسکٹ کی بچت سے درست کئے جا سکتے ہیں تو ایک مقامی ضرب المثل کے مطابق مردے کی مونچھیں مونڈنے سے جنازے کا بوجھ کم نہیں ہوتا۔ برائون صاحب اور ان کے بابا لوگ کے لیے ٹی ایس ایلیٹ کی وہ سطر کافی ہو گی۔I have measured my life in coffee spoons. یاد رہے کہ الفریڈ جے پروفراک ایک ناکام کردار کی خودکلامی ہے۔پاکستان میں انتخابی عمل کے بارے میں شدید تحفظات کے باوجود نئی حکومت کو تسلیم کر لیا گیا۔ اب آئین کے مطابق حکومت چلانا وزیراعظم اور ان کے رفقا کی ذمہ داری ہے۔ حزب اختلاف حکومتی اقدامات پر تنقید کرے گی اور یہ اس کا آئینی منصب بھی ہے۔
تاہم یہ نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے ملک کی تاریخ کا جو مرحلہ شروع ہوا ہے اس میں عمران خان کو حقیقی فریق قرار دے کر ہدف بنانا اصل مسئلے سے چشم پوشی کے مترادف ہو گا۔ 25جولائی کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اسے 1988ء سے لے کر 2013ء تک ہونے والے سات انتخابات کا تسلسل سمجھنا چاہیے۔ اگر سیاسی قوتوں کو شفاف انتخابی ثقافت کی طرف بڑھنا ہے تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے معلوم کرنا چاہیے کہ تبدیلی لانے والا حقیقی کردار کون ہے؟ 90ء کی دہائی میں حکومت تبدیل ہونے کا وقت قریب آتا تھا تو اچانک کراچی میں قتل و غارت شروع ہو جاتی تھی۔ اب کے ایسا نہیں ہوا۔ 1985ء میں جس خودکاشتہ پودے کی آبیاری کی تھی اب اس کی شاخیں کاٹ پیٹ کرحسب منشا حجم عطا کر دیا گیا ہے۔ کچھ نئے پودوں کی پنیری لگا دی گئی ہے۔ نئی کابینہ کے پہلے اجلاس کا ایجنڈا دیکھ لیجئے۔ سات نکات میں سے چھ کا تعلق اسی قطبی سیاست اور بلدیاتی اقدامات سے ہے جو 1959ء میں سیاسی قیادت کے لیے موزوں قرار پائے تھے۔ کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں ملک کو درپیش معاشی بحران، ناکام خارجہ پالیسی، وفاقی اکائیوں میں عدم اعتماد، ملکی سلامتی کو درپیش خطرات اور دہشت گردی جیسے مسائل کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ تاہم یہ معاملات صرف حکمران جماعت کی ذمہ داری نہیں بلکہ وسیع تر قومی اتفاق رائے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایسے میں خبر یہ ہے کہ نواز شریف جیل میں ہیں ، آصف علی زرداری پرانے حساب چکانے کی فکر میں ہیں۔ اعتزاز احسن کا پچاس سالہ کیریئر ایک بے مقصد مشق میں مسخ کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی چار دہائیوں پر محیط سیاسی خدمات اکارت جائیں گی۔ دوسری طرف اقتدار کے خوان نعمت پر جمع ہونے والوں میں کمال اتفاق اور یک جہتی پائی جاتی ہے۔ جمہوری قوتوں کو سمجھنا پڑے گا کہ ملک جس بحران سے دوچار ہے، اس میں عمران خان کی ذات اور ان کی حکومت حقیقی فریق نہیں ہیں۔ اس تفہیم کے بغیر جمہوری جدوجہد کو حقیقی معنوں میں آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔