“ہماری بھی کوئی عزت ہے.”، یہ خوبصورت جملہ وزیرِ داخلہ احسن اقبال کے لبوں سے نکلا اور پوری قوم کے کانوں میں رس گھول گیا۔ دل مچلنے لگ گیا کہ ذرا پتہ لگایا جائے، ہماری کہاں کہاں عزت ہے۔ اب دل کو کون سمجھائے۔ دل تو بچہ ہے جی۔
چونکہ یہ بات جناب احسن اقبال نے کی تھی تو ہم نے ان کی وزارت سے ہی جانچنے کی کوشش شروع کی. آنکھوں کے سامنے امریکن ائیرپورٹ پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی تلاشی گھوم گئی جس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم صاحب نے بتایا تھا کہ وہ قانون کو عزت دیتے ہیں.
دوسری طرف امریکن ملٹری اتاشی کرنل جوزف کی گاڑی سے ہلاک ہونے والے محمد عتیق کے کیس کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ وزارت داخلہ کی پوری کوشش تھی کہ ملزم کو سفارتی استثنیٰ دے دیا جائے. اسی وجہ سے اسکا نام ECL میں نہیں ڈالا گیا ہے. اب بلیک لسٹ کی نئی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے. یہ معاملہ بھی ریمنڈ ڈیوس کیس کی طرح دیت کی ادائیگی پر ختم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے. زیادہ امکان یہی ہے کہ دیت کا بندوبست بھی وزارت داخلہ نے ہی کرنا ہے. آخر کو وزیر موصوف کی امریکہ مپں بھی بہت عزت ہے. امریکی شہریت ہے کہ نہیں، اس بارے لب خاموش ہیں۔
وزارتِ خزانہ کی طرف نظر دوڑائی تو پتہ چلا کہ وہ تو پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے چکر میں ہیں مگر ظالم تین وزرائے اعلیٰ اس تجویز کو ماننے کو تیار نہیں ہیں. وہ اس حوالے سے بلائی جانے والی میٹنگ سے واک آؤٹ کر چکے ہیں. اب مشیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل پاکستان کا بجٹ پیش کریں گے یا صرف پنجاب کا، یہ تو اب انکی اپنی عزت کا سوال ہے۔
سابقہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار صاحب شدید علالت میں لندن میں داخل ہیں. ان کے وکیل کی طرف سے اعلیٰ عدالت کو بتای گیا تھا کہ وہ چند قدم بھی نہیں چل سکتے مگر ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ بھاگم بھاگ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور میاں نواز شریف سے ملنے پہنچ گئے. آخر کو ان کی اپنی بھی کوئی عزت ہے مگر بات عدلیہ کو بھی عزت دینے کی ہے. دیکھیں اسحاق ڈار کب واپس آ کر عدالت میں پیش ہو کر اپنی عزت میں مزید اضافہ کرتے ہیں.
وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کے حوالے سے خبر آ رہی ہے کہ دبئی کے اقامہ کی وجہ سے ممکن ہے وہ نا اہل ہوجائیں یا ممکن ہے عدالتی فیصلہ اس کے بر عکس ہو مگر ممبر قومی اسمبلی اور سینیئر وزیر ہونے کے باوجود وہ کسی بھی دوسرے ملک میں کسی بھی قسم کی ملازمت کیوں کر رہے ہیں. اگر اس راز سے وہ خود ہی پردہ اٹھا دیں تو وہ بھی با عزت لوگوں میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں.
یہ ساری باتیں اور معاملات اپنی جگہ، اس موقع پر سب سے زیادہ جس کی عزت کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ ہے ووٹ کی عزت. میاں نواز شریف کا بیانیہ یا ن لیگ کی ساری انتخابی مہم یہی ہوگی کہ ووٹ کو عزت دو۔
اب یہ نظریاتی اور انقلابی بیانیہ کیا رنگ لاتا ہے یا عوام میں اس کو کتنی پذیرائی ملتی ہے. اس کا فیصلہ تو عام انتخابات کے نتائج ہی کرینگے مگر مجھے گلی کوچوں میں جو خاموش ووٹر نظر آرہے ہیں، انکی بجھتی آنکھوں سے ایک ہی سوال چھلک رہا ہے؟
کیا ہماری بھی کوئی عزت ہے؟