میاں کاشف کھیل کود میں مگن تھے۔ ان کی امی نے آوازدی توانھوں نے سنی ان سنی کردی۔ امی نے جب بلند آواز میں انھیں ڈانٹ کر اپنے قریب بلایا تو وہ بڑے بھول پن کے ساتھ دوڑے چلے آئے۔ ان کی امی نے بات نہ سننے پر انھیں پھٹکارا تو وہ بڑی معصومیت سے بولے: امی میں توا ونچا سننے لگا ہوں۔ یہ سن کر وہ سناٹے میںآ گئیں اور بیٹے کو معالج کے پاس لے گئیں۔ معالج نے پوری توجہ سے کاشف کے کان دیکھنے کے بعد کہا: ان کان میں تومیل جمع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے اونچا سن رہے ہیں۔
کان میں میل کی شکایت کاتذکرہ شاذونادر ہی ہوتاہے، کیوں کہ لوگ اس کے تذکرے سے اس طرح بچتے ہیں، جیسے پاؤں کی بوکے ذکر سے۔ اگرچہ یہ ایک قدرتی عمل ہے، لیکن اس کے بارے میں معلومات کا ہونا ضروری ہے، تاکہ کان صاف رکھے جائیں۔
کان میں میل خود بخود بنتا ہے اور یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ یہ کیوں اور کیسے بنتا ہے؟ یہ ایک طبی معما ہے۔ کان میں میل بہت زیادہ جمع ہوجانے سے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، جن میں بہراپن بھی شامل ہے۔ بچوں کے کان صاف نہ رکھنے کی صورت میں انھیں کلاس روم میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اکثر بوڑھے بھی کان صاف نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے لاحق ہونے والی ثقِل سماعت کو بالعموم بڑھاپے کا نتیجہ سمجھ کر صبر کرلیتے ہیں۔
میل صاف کرنے کا طریقہ:
کان کامیل صاف کرنے کے لیے بالعموم روئی کے پھائے، تیلیاں، پنیں، دیاسلائی، ناخن یاپھر کوئی باریک وپتلی چیز استعمال کی جاتی ہے۔ ان کی مدد سے کان کی نالی میں اٹے میل کا نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے اکثر اوقات کان کے اندرونی نازک حصوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ بسا اوقات کان میں خراش اور زخم بھی ہوجاتا ہے۔ زخم بگڑجائے تو اس میں تعدیے (انفیکشن) کی وجہ سے معاملہ اور بگڑ جاتا ہے اور اکثر صورتوں میں ان تدابیر سے میل خارج ہونے کے بجائے کان میں مزید اندردھکیل دیا جاتا ہے۔ کان صاف کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ روئی لگی تیلی استعمال کی جائے، جسے” کاٹن بڈ“ کہتے ہیں یہ تیلیاں بہ آسانی بازار میں مل جاتی ہیں۔
کان کی بیرونی نالی کے غدود سے تیار ہونے والا یہ میل کان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ قدرت کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ کان کا میل ریت، گرد، کیڑے مکوڑوں کوکان کے اندر داخل ہونے سے روکتا ہے اور انھیں کان کے پردے تک پہنچنے نہیں دیتا۔اس کی وجہ سے کان میں پانی بھی داخل نہیں ہوتا، اور اگر ہوتا بھی ہے تو اس کی چکنائی کی وجہ سے جلد خارج ہوجاتا ہے۔ کان کامیل کان کی اندرونی اور بیرونی سطح کو خشکی اور خارش سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
کان کے اندرونی خلیات بڑھتے اور پھلتے رہتے ہیں۔ اس عمل میں یہ خیلات کان کے پردے سے بیرونی حصے کی طرف حرکت کرتے ہیں، جس کی وجہ سے میل بھی آگے بڑھتا ہے اور جوں جوں بیرونی حصے کی طرف کھسکتا ہے، خشک اور سخت ہوتا چلا جاتا ہے۔ اکثر اوقات بالعموم خشک میل کان سے خارج بھی ہوجاتا ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ اسے وقتا فوقتا نکال کر کان صاف کر لیا جائے۔
اس کی ایک محفوظ صورت یہ ہے کہ کپڑا گیلاکرکے انگلی کی مدد سے کان میں داخل کرکے اس سے میل صاف کرلیا جائے۔
بعض لوگ تیزا کی کے دوران پانی میں ڈبکیاں لگانے کو بھی کان کا میل صاف کرنے کا طریقہ سمجھتے ہیں، جو درست نہیں ہے، کیوں کہ پانی کی وجہ سے میل پھول کر کان میں ڈاٹ بن کر سماعت کم کرسکتا ہے۔
یہاں یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ کان کا میل بعض لوگوں میں کچھ زیادہ ہی بنتا ہے۔ ایسے افراد کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ تیرا کی کاموسم شروع ہونے سے پہلے معالج سے اپنے کان صاف کرالیا کریں۔ کن میلیے کی خدمات حاصل کرنا مناسب نہیں۔ کان صاف نہ ہوں تو طویل عرصے تک نہروں، جھلیوں میں نہانے اور تیرنے سے میل کی وجہ سے اس میں تعدیہ بھی ہوسکتا ہے۔
نوجوانوں کے کان کامیل عام طور پر نرم، نم دار، چیکٹ اور شہد جیسی رنگت کاہوتا ہے، لیکن عمر میں اضافے کے ساتھ یہ سخت ہونے لگتا ہے اور کان سے خشک اور سخت میل کا اخراج مشکل ہوجاتا ہے۔ اس قسم کا میل پانی سے پھول کر کان کی نالی بھی بند کردیتا ہے۔ اس کی وجہ سے کان میں سماعت کاآلہ استعمال کرنے والوں کے لیے بھی مشکل پیدا ہوجاتی ہے۔
میل سے نجات کے لیے:
کان میں پھنسے ہوئے میل کے اخراج کاکام گھر میں بھی کیا جاسکتا ہے، بشر طے کہ کان میں کوئی اور تکلیف نہ ہو۔ اگر آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے کان میں میل جمع ہونے کا رحجان زیادہ ہے تو سب سے پہلے میل کو نرم کرنے کی تدبیر کریں۔ اس کے لیے یہ مناسب ہے کہ کڑوے تیل، روغن زیتون یا تل کے نیم گرم تیل کی دوچار بوندیں کان میں سوتے وقت ٹپکالی جائیں۔ چندروز یہ عمل جاری رکھنے سے اکثر اوقات میل خود بہ خود خارج ہوجاتا ہے۔
ایک صورت یہ بھی ہے کہ چاے کا ایک چمچہ گلیسرین میں ایک چٹکی میٹھا سوڈا اچھی طرح ملا کرا اس کی دو چار بوندیں چند مرتبہ کان میں ڈالیں۔ اس سے بھی میل خارج ہوجاتا ہے۔
ان تدابیر سے میل نہ نکلنے کی صورت میں کان کو نیم گرم پانی کی پچکاری سے صاف کریں۔ بھاپ سے بھی میل پھول کر نرم ہوجاتا ہے، جس کے بعد اسے روئی لگی تیلی سے صاف کیا جاسکتا ہے، لیکن کان کے پردے کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
کان کے لیے لہسن اور نیم کے پتوں کا تیل بہت مفید ہوتا ہے۔ تھوڑے سے تیل میں لہسن کی ایک دوکلیاں اور 10سے 12نیم کے پتے دھیمی آنچ پر جلاکر چھان کررکھ لیں اور اس تیل کے دوتین نیم گرم قطرے سوتے وقت کان میں ڈال کر روئی لگادیں۔ اس تیل سے نہ صرف یہ کہ میل آسانی سے نرم ہوکر خارج ہوجائے گا، بلکہ کان خراش اور تعدیے سے بھی محفوظ رہیں گے۔ اکثر اوقات نزلے کی وجہ سے کان میں میل اور دردوخراش کی شکایت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بہتر ہوگا کہ آپ اپنے معالج سے بھی مشورہ کرلیں۔
کان محض کھڑے کرنے اور انیٹھے کے لیے نہیں ہوتے۔ صوتی دنیا انھی کے دم سے آباد رہتی ہے، اس لیے ان کی حفاظت پوری توجہ اور احتیاط سے کرنی چاہیے۔