ہماری عوام کو ڈاکٹر بہو بہت پسند ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم ڈاکٹر کے علاوہ کسی اور کو پڑھا لکھا مانتے نہیں ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر بہو پورے خاندان کے لیے بائثِ فخر ہوتی ہے۔ شائد ڈاکٹر بہو کی خواہش اپنی ناکامیوں کو اس کی ڈگری کے پیچھے چھپانی کی ایک کوشش ہوتی ہے۔
جب بھی مائیں اپنے بیٹوں کی شادی کا سوچتی ہیں تو بس انہیں ایک ڈاکٹر ہی اپنی بہو کے روپ میں قبول ہوتی ہے۔ اپنا بیٹا چاہے مریض بننے کے بھی قابل نہ ہو مگر یہ اس کے لیے ڈاکٹر بیوی ہی ڈھونڈتی ہیں۔ ڈاکٹر بیوی بھی وہ جس کا رنگ، قد، عمر اور جسمات ان کی ڈیمانڈ کے مطابق ہو۔
دوسری طرف اکثر لڑکیوں کے والدین انہیں ڈاکٹر اسی لیے بناتے ہیں کہ انہیں اچھا رشتہ مل سکے۔ اب یہ رشتہ چاہے میڈیکل کالج جوائن کرنے کے ایک دن بعد ملے، ایک سال بعد یا پانچ سال بعد، یہ فوراً اپنی بیٹی کی پڑھائی چھڑوا کر اسے لال جوڑا پہناتے ہیں اور ٹرک بھر جہیز سمیت اگلے گھر روانہ کر دیتے ہیں۔
جو لڑکیاں خوش قسمتی سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کر لیتی ہیں ان میں سے بہت کم عملی شعبے میں آتی ہیں، وجہ وہی شادی، اِدھر ڈگری ملی اُدھر دلہا حاضر۔ ہمارے مرد بھی احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ کافی پڑھے لکھے مرد اپنی بیویوں کو صرف اسی لیے نوکری کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ وہ انہیں ہمیشہ اپنے سے نیچا دیکھنا چاہتے ہیں۔
جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ایک لڑکی کو شادی کے بعد صرف شوہر کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ غلط ہیں۔ ایک لڑکی کو اپنے شوہر کے بعد ساس، سسر، نند، دیور اور کبھی کبھی تو گلی میں کوڑا اکٹھے کرنے والے جمعدار کی بھی اجازت لینی پڑتی ہے۔
لیڈی ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد کو سسرال والوں کی طرف سے کام کی اجازت نہیں ملتی۔ انہیں بس ڈاکٹر بہو چاہئیے ہوتی ہے کیونکہ ان کے خاندان کے کوئی بڑے بزرگ جاتے جاتے فرما گئے تھے کہ ڈاکٹر بہو کے ہاتھ کی گول گول روٹیاں بہت مزیدار ہوتی ہیں۔ انہیں اب وہ گول روٹیاں چاہئیے۔
ان لوگوں کو بہو کے کرئیر سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ان کا مطلب تو صرف اس کی ڈگری سے ہوتا ہے جسے گرمیوں میں وہ ہاتھ والے پنکھے کی جگہ استعمال کرتے ہیں اور ٹھنڈی ہوا کا مزہ لوٹتے ہیں۔
پاکستان کے میڈیکل کالجز کی اسی فیصد نشستوں پر لڑکیاں داخلہ لیتی ہیں لیکن ان میں سے صرف پچاس فیصد ڈگری مکمل ہونے کے بعد کام کرتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں کتنی لیڈی ڈاکٹرز کام کر رہی ہیں اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے پاس صرف ان ڈاکٹرز کا ریکارڈ ہے جو ان کے ساتھ رجسٹریشن حاصل کرتے ہیں۔ اس ریکارڈ کے مطابق 2016ء میں جن ڈاکٹرز نے رجسٹریشن حاصل کی ان میں چھیاسٹھ فیصد تعداد خواتین کی تھی۔ یہ ڈاکٹر رجسٹریشن کے بعد کام کر رہی ہیں یا نہیں اس کے بارے میں پی ایم ڈی سی کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اس ڈیٹا کو حتمی نہیں مانا جا سکتا۔
ڈاکتر بننے کے لیے ان لڑکیوں کو اچھی خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ میٹرک سے ہی اس محنت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ میٹرک اور ایف ایس سی میں اچھے نمبر آئیں گے تو میڈیکل کالج میں داخلہ ملے گا وگرنہ اپنے ساتھ ساتھ پورے خاندان کے خواب کرچی کرچی ہو جائیں گے۔ اتنی محنت کرنے کے بعد ان لڑکیوں کو کام کرنے سے منع کر دیا جاتا ہے کیونکہ انہیں ڈاکٹر بہو بنا کر لے جانے والا خاندان انہیں غیر مردوں کا علاج کرتا نہیں دیکھ سکتا۔
ایک ڈاکٹر کی ڈیوٹی کے کوئی اوقات مقرر نہیں ہوتے۔ اس کی ڈیوٹی آٹھ گھنٹوں سے چھتیس گھنٹوں کی ہو سکتی ہے۔ چھتیس گھنٹوں تک گھر کی بہو گھر سے باہر رہے گی تو خاندان کی عزت کا تو کباڑہ ہو جائے گا۔
کچھ اچھے لوگ اگر اپنی بہو کو کام کرنے کی اجازت دے بھی دیں تو وہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی بہو چھتیس گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد گھر میں ہنستی مسکراتی داخل ہو، سب کو سلام کر کے سیدھا کچن میں جائے اور ہر ایک کی پسند کے مطابق کھانا تیار کر کے دسترخوان پر چن دے۔
ایسی خیالی دنیا میں رہنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ڈاکٹر بہو کوئی ربوٹ نہیں بلکہ انسان ہوتی ہے۔ اگر آپ نے صرف روٹیاں بنانے کے لیے بہو گھر لانی ہے تو ہمارے ملک میں کافی ایسی لڑکیاں موجود ہیں جن کی زندگی کا مقصد بس شادی کرنا ہے۔ یہ لڑکیاں امور خانہ داری میں ماہر ہوتی ہیں اور ان سے بہتر گول روٹیاں کوئی نہیں بنا سکتا۔ آپ ان لڑکیوں کا انتخاب کریں اور جی بھر کر گول روٹیاں کھائیں بلکہ دو چار اپنے ڈرائنگ روم کی دیواروں پر فریم کروا کر بھی لٹکائیں۔