تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
ہر پیشہ میں زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی دُھن سوار ہے مگر اب ڈاکٹر بھی اس”نیک مشن ” میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔پیشہ کے اعتبار سے واقعی ڈاکٹر ایک مسیحائی روپ میں ہے۔ اور تدریس کے دوران وہ میڈیکل کالجوں میں بطور طالب علم اس نیک مشن پر عمل پیرا ہو جانے کا مقصد لیے ہوتا ہے مگر جونہی وہ ایم بی بی ایس کر لیتا ہے اس پر گھر والوں کا پریشر اور پھر بیوی بچوں کے تقاضے مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈھیروں مال کمائے کہ اس نے پرانے ادوار کے برعکس ایک کروڑ سے زائد خرچ کرکے یہ ڈگری حاصل کی ہے آجکل یہ سب کچھ میڈیکل پروفیشن میں اُلٹ پُلٹ ہو جانے سے جنم پا چکا ہے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کا تصور خود مال کمائو پروگرام کا حصہ ہے۔طالب علم خواہ تھرڈ کلاس نمبر رکھتا ہو۔
اس کاداخلہ 50لاکھ میں ہو جائے گابعد کے پانچ سالوں میں مزید پچاس یا ساٹھ لاکھ خرچ کرکے وہ ڈاکٹر بنے گا تو وہ دونوں ہاتھوں سے نہیں لوٹے گا تو اور کیا کرے گا؟ پھر عملی زندگی میں دوا فروش نمائندگان(میڈیکل ریپ)اسے ہر صورت کرپٹ کرچھوڑتے ہیں۔کہ کمپنیوں کی دوائی کا نام مختلف ہو سکتا ہے مگر اس میں میٹریل(سالٹ) تو ایک سا ہی ہوتا ہے کاش !جنرک ناموںسے ادویات کی تیاری شروع ہو جائے جس سے مختلف خود ساختہ ناموں سے اسی ایک دوائی کی فروخت بند ہوجائے گی تو ہی یہ قضیہ مستقل طور پر حل ہو سکے گا۔راقم الحروف نے نشتر کالج ملتان میں دوران تربیت پاکستان ڈاکٹرز آرگنائزیشن کے نام سے علیحدہ تنظیم پورے ملک میں بنائی جس نے دیرینہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جگہ لینا شروع کردی۔
میں اس کا پہلا کنوینر اور ڈاکٹر عیص محمدجنرل سیکریٹری بنے ۔(جو اب کئی میڈیکل کالجوں و ہسپتالوں کے سرابراہ رہ کر ریٹائرڈ ہو چکے ہیں)ہم نے پروفیسروں کی ناجائز پرائیویٹ پریکٹس کے خلاف احتجاجی تحریک منظم کی اور وہ عوام کی نظروں میں خون چوسنے والی جونکیں (Blood Suckers)قرار پائے اس وقت تک جنرل ضیاء قابض ہو چکے تھے ان سے درجنوں ملاقاتیں کرکے انھیں اس غیر قانونی پریکٹس کو ختم کرنے کے لیے قائل کیا مگر صد حیف کہ وہ اس پر عملدر آمد کرنے کے لیے کوئی حکم جاری نہ کرسکے ویسے بھی کوئی سرکاری ملازم اپنی تعیناتی کے دوران کوئی دوسرا منفعت بخش کاروبار نہیں کرسکتا۔یہ سرکاری نوکری کا سکہ بند اصول ہے مگر کون پو چھتا ہے؟سارا ہی آوے کاآوا بگاڑ کا شکا ر ہے صدر ،وزیر اعظم ،وزراء ،سیکریٹری کرپشن کر کے دولت پر سانپ بنے بیٹھے ہیں تو چھوٹے چھوٹے سنپولیوں کو کون مال سمیٹنے سے روک سکتا ہے؟۔
خود دوران تعلیم میرے ہم سفروں میں سے چودہ نے جامع مسجد نشتر کالج میں حلف اٹھایا کہ طبی مشن کا اصل تقاضا یہ ہے کہ غریب عوام الناس کی مفت خدمت کی جائے اور اسے منافع بخش کاروبار نہ سمجھا جائے مگر میرے علاوہ کوئی بھی ایسے حلف کا پاس نہ کرسکا پاکستان بھر میں اکا دکا ڈاکڑوں کے علاوہ سبھی نوٹ بنانے والی مشین بنے ہوئے ہیں اور غریب عوام کے نزدیک یہ معاشرے کے مسیحا نہیں بلکہ ناسور ہیں اور سبھی دولت کے اندھے کنوئیں میں گرتے گہرے غرق ہورہے ہیں اس طرح ایسے ڈاکٹرز نے مال تو کروڑوں میں کمایا مگر عزت ایک دھیلے کی بھی نہ بنا سکے ان سے لوگ سامنے بہ امر مجبوری سلام لیتے اور غائبانہ صلواتیں سناتے ہیں۔میڈیکل ریپ سے مک مکا کے بعد جس کمپنی سے معاہدہ ہو گیا اسی کی ادویات نسخوں میں لکھیں گے۔
اس طرح حج ،عمرہ،ائیر کنڈیشنڈ گاڑیاں،بچوں کے شادی بیاہ جہیز کا خرچہ ادویات فروش کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔جن کی بنا پر ادویات کی قیمتیں غریب مریضوں کی پہنچ سے مکمل باہرہو چکیں۔یہاں تک کہ وزارت صحت کے کار پرداز بھی دوائی کی ایک روپیہ قیمت بڑھانے پر ایک کروڑ سے کم “نذرانہ”نہیں لیتے اس طرح سے یہ غلیظ گھن چکر جاری ہے بھلا اس سے بڑی اخلاق باختگی،بے حیائی اور جگ ہنسائی اور کیا ہو گی کہ مسیحا بک جائے اور وہ دوائی لکھے جو کمپنیاں کہیں۔وزارت صحت کی “ترپ چالیں”ادویات کی قیمتوں کو دو گنا سہ گنا کرڈالتی ہیں کوالیفائڈ ڈاکٹروںکی فیسیں اتنی زیادہ کہ غریب مریض تو ان کے کلینک “کمائو کارخانوں ” کے اندر قدم بھی نہیں رکھ سکتاادھر سرکاری ہسپتالوں میں پروفیسر حضرات نہ تو آئوٹ ڈور میں بیٹھتے ہیں اور نہ وارڈوں میں مریضوں کو چیک کرتے ہیں ۔بس مریضوں کو ایک ہی تاکید و تنبیہ اور”تبلیغ”کی جاتی ہے کہ ذاتی کلینک پر پہنچیں وہیں صحیح چیک اپ ہوسکتا ہے( حالانکہ واضح ہے کہ مریض کی کھال بھی وہیں صحیح طور پر اکھڑ اور اتر سکے گی)۔
یہ روز روشن میں جیب تراشی اور ڈکیتی کیسے رک سکے گی؟ کوئی حکمران یا ان کا نمائندہ وزیر ،سیکریٹری بتائے تو سہی کہ کیا یہ یک روزہ الیکشنی دھاندلیوں سے روزمرہ کی جانے والی بڑی دھاندلی نہیں ہے؟سیاستدان وبیورو کریٹ کیوں بولیں گے کہ ان کے نام گرامی یا خوف و دھونس کی وجہ سے ڈاکٹروں کے ہاں بھی ان کا”مفتہ” لگ ہی جاتا ہے سرکار سے تنخواہ لینے والے پروفیسرز اخلاقاً پابند ہیںکہ وہ مریضوں کو اسی تنخواہ کے عوض چیک کریں ان کا نسخہ علاج لکھیںمریضوں سے صرف ٹیسٹوں کی مد میں ہزاروں روپے چھن جاتے ہیں کیا کسی نام نہاد خدمت گزار حکومت نے کوئی رکاوٹ کھڑی کی بالکل نہیں! ہر وزیر ،مشیر ،سفیر کا مفت چیک اپ ہو جاتا ہے بھاڑ میں جائیں عوام وہ کس باغ کی مولی ہیں۔
وزیر اعظم کی طرح اصل حکمرانوں نے سرکاری خزانے اور ترقیاتی فنڈز سے اربوں کما رکھے ہوتے ہیں اسلئے ان کی ترجیح بیرون ملک کا علاج ہوتی ہے ادھرغلیظ گلی کو چوں کے رہائشی عوامی کیڑوں مکوڑو ں کے لیے علاج گاہیں ہسپتال نہیں بلکہ ذبح خانے ہیں جہاں مریض فوت بھی ہو جائے تو فیسیں ادا کئے بغیر لاش تک نہیںاٹھائی جاسکتی۔ڈاکٹر کا شعبہ ضروری خدمات (Essential Services) میں آتا ہے وہ ہڑ تال کے اصولاً قانوناً مجا زہی نہ ہیں پھر بھی ہم نے بہ امر مجبوری جو ہڑتالیں ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل سٹاف سے کروائیں ان میں کبھی ایمر جنسی بند نہ کی گئی تھی کہ یہ تو بچارے مریض کے لیے ڈائریکٹ موت کا پروانہ ہے جو کہ پیشہ طب کے بنیادی اصولوں کے ہی خلاف اور سراسر گنا ہ کے زمرے میں آتا ہے۔
ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کو نسل اس وقت تک پریکٹس کا اجازت نامہ ہی نہیں جاری کرتی جب تک وہ ہمہ قسم مریضوں کو بلا امتیاز کسی مخصوص پیشہ ،فرقہ ،ذات علاقہ ،زبان کے خدمت کا حلف نہیں اٹھاتا۔بیورو کریسی کی اصل حکمرانی کی وجہ سے ڈاکٹر لاکھ ہڑتالیں کرتے رہیں ان کا گریڈ وہ کیوںاپنے سے سنئیر لینے دے گی بطور کنوینئر پی ڈی اواور سیکرٹری سٹوڈنٹس کونسل سالو ں جیلوں میں رہ کر ،پولیس سے سر پھٹول کروا کر ہفتوں بیہوش ہسپتالوں میں تڑپ کر ساراجسم زخمی و چھلنی کرواکر ڈاکٹروں کو میں اپ گریڈ نہ کرواسکا۔جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا۔
خزانوں پر اژدھے بنے بیٹھے آج کے جمہوری آمر کہیں مطالبات مانا کرتے ہیں ہاں اپنا مفاد ہو گا تو کوے کو سفید بھی کہہ ڈالیں گے۔نوجوان ڈاکٹرزمزدوروں کی طرح محنت کرتے مگر معقول معاوضہ نہیں پاتے اسلئے تنگ آمد بجنگ آمد ہڑتالوں پہ ہڑتالیں مگر ڈاکٹروں کی قناعت پسند رہ کر خدمت خلق کرنے میں ہی عزت و عافیت ہے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری