ڈور بیل پر دروازہ کھولا تو پڑوسن سامنے تھیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے میرے بھائی محسن کا پوچھا، وہ اس وقت گھر پر موجود نہ تھا۔ میرا جواب سن کر انہیں بے حد مایوسی ہوئی، بتایا کہ ان کا بیٹا بیمار ہے اور شوہر گھر پر نہیں تھے تو خود ہی کالونی اسپتال لے گئیں۔ ڈاکٹر نے جو دوائیں لکھ کر دی ہیں وہ قریبی کیمسٹ کے پاس دستیاب نہیں۔ کیمسٹ نے انہیں کہا کہ یہ صرف اسی فارمیسی سے ملیں گی جہاں ڈاکٹر بیٹھتا ہے۔ وہ کہنے لگیں، میرا خیال تھا کہ یہاں اتنے بڑے میڈیکل اسٹور ہیں، کسی سے بھی لے لوں گی، مگر مل ہی نہیں رہیں۔ سوچا محسن سے منگوالوں۔ اب اتنی دور دوبارہ جانا میرے بس کی بات نہیں، مگر محسن جانے کب آئے گا۔ دوا تو ابھی دینی ہے۔
میں سمجھ گئی تھی کہ معاملہ کیا ہے، لیکن اس وقت انہیں مخصوص فارمیسی پر دوا کی دستیابی کا ’’راز‘‘ بتا کر مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے کچھ کہے بغیر اندر آگئی۔ یوں بھی اس پریشانی میں وہ میری بات کو نہیں سمجھ پاتیں۔ میں اس بات کو تقریباً بھول چکی تھی کہ کل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے متعلق ایک خبر نظر سے گزری اور میں قلم اٹھانے پر مجبور ہوگئی۔
کچھ دن پہلے یہ بھی سنا تھا کہ بعض دواؤں کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ شاید مختلف لیبارٹری ٹیسٹوں کی قیمتیں بھی بڑھی ہوں، مگر وہ نظروں میں کم ہی آتا ہے۔ خیر، ابھی کچھ دن پہلے کی ہی خبر ہے کہ ڈرگ اتھارٹی جعلی اورغیر معیاری دواؤں کی روک تھام کے لیے پاکستان میں پہلی مرتبہ بارکوڈ رولز متعارف کروانے جارہی ہے اور اب خریدار موبائل فون کے ذریعے دوا کے اصل یا نقل ہونے کے بارے میں جان سکے گا۔ اس کے علاوہ اس پیشے سے منسلک جعل سازوں کے لیے مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں اور یہ کام ابتدائی مرحلے میں ہے۔ شاید اسی مہینے چند دوائیں نئی قیمتوں کے ساتھ مارکیٹ میں آئیں، جس کے ردعمل میں سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر اس کے خلاف ’’تحریک‘‘ چل پڑی ہے جبکہ میڈیا پر خبریں بھی سامنے آرہی ہیں، لیکن میری اس تحریر کی وجہ مذکورہ حکومتی فیصلہ یا قیمتوں میں اضافہ نہیں بلکہ پڑوسن کی پریشانی ہے۔
شاید آپ کو بھی تجربہ ہوا ہو کہ گلی محلوں میں قائم طبی مراکز اور نجی اسپتالوں میں بعض ڈاکٹر معائنے کے بعد نسخہ تھماتے ہوئے ہدایت کرتے ہیں کہ مریض فلاں فارمیسی سے ہی دوا خریدی جائے بصورت دیگر کوئی جعلی دوا بھی دے سکتا ہے اور وہ آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ سن کر کوئی بھی ڈاکٹر کو انتہائی ذمہ دار اور اپنا خیرخواہ ہی سمجھے گا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایسے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنے والا مریض دراصل مقامی اور غیر رجسٹرڈ کمپنی کی غیر معیاری دوا خرید کر اس نام نہاد مسیحا کی جیب بھاری کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
ایک ٹیبلٹ جس کی زیادہ سے زیادہ قیمت پانچ، سات روپے تک ہوسکتی ہے، وہ اس ’’مہربان‘‘ ڈاکٹر کی وجہ سے بیس روپے یا اس سے زائد کی پڑتی ہے۔ جی ہاں! اس مقدس اور اہم ذمہ داری سے وابستہ ڈاکٹر اب ناجائز طریقے سے پیسہ بنانے کے لیے انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں اور ہمیں ان کے ’’طریقۂ واردات‘‘ کو سمجھنا اور اس کا راستہ روکنا ہوگا۔ اس کا سب سے زیادہ شکار ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی جو علاج معالجے کی سہولیات جیسے ضروری لیبارٹری ٹیسٹ، دواؤں سے متعلق بنیادی باتیں جیسا کہ معروف اور غیر معروف کمپنیوں کا فرق اور دوا کے معیاری یا اصل ہونے کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔
ہم ڈاکٹر کی ہدایات کو بہت اہمیت دیتے ہیں جو کہ ضروری ہے، مگر ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ سفاک ڈاکٹرز اور غیر رجسٹرڈ دوا ساز ادارے کے گٹھ جوڑ سے ایسی بھی ٹیبلٹ بیچی جارہی ہیں جن کی زیادہ سے زیادہ قیمت 5 روپے ہوسکتی ہے، مگر وہ 40 سے 45 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔ آپ کے ذہن میں سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا غیر معیاری ہے تو عام بیماریوں میں مبتلا زیادہ تر مریض صحتیاب کیسے ہوجاتے ہیں؟ اس کی وجہ اُسی نسخے میں لکھی گئی ایک نامور اور مستند کمپنی کی ٹیبلٹ یا سیرپ ہوتا ہے۔ دیگر دوائیں وہ ہوتی ہیں جن سے شفایابی تو ممکن نہیں ہوتی مگر ان کی خریداری ڈاکٹر کو ضرور مالی فائدہ پہنچاتی ہے۔
مہینے کے آخر میں غیر معیاری دواؤں کی فروخت کا حساب کتاب کرکے طے شدہ حصے پر رقم اس فارماسیوٹیکل کمپنی کی جانب سے ڈاکٹر کی جیب میں منتقل کردی جاتی ہے۔ اسی لوٹ کھسوٹ کی ایک شکل غیر ضروری لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کرنا بھی ہے۔ مختلف مریضوں کو مخصوص لیبارٹری سے ٹیسٹ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے اور اگر کوئی بیچارہ یہ کہہ دے کہ وہ فلاں جگہ سے ٹیسٹ کروالے گا تو ڈاکٹر اس لیبارٹری کی مشینوں اور اس کے طبی تجزیوں کو ناقص قرار دے کر صاف کہہ دیتا ہے کہ وہ رپورٹس تسلیم نہیں کرے گا۔ اس طرح مریض کو خوفزدہ کرنے سے جیت سفاک مسیحا کی ہوتی ہے اور مجبور مریض بیماری کی اذیت جھیلنے کے ساتھ مالی طور پر خسارے میں رہتے ہیں۔
میں اپنی معلومات کے مطابق جعل سازی اور دھوکا دہی کے کچھ عام طریقوں کی نشاندہی کررہی ہوں، لیکن ملک کے طول وعرض میں موجود ایماندار ڈاکٹرز اور کیمسٹ حضرات سوشل میڈیا پر اپنے پیشے کی بدنامی کا باعث بننے والوں کے دیگر ’’طریقۂ واردات‘‘ سے بھی پردہ اٹھائیں تو بہت افراد کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت بھی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ایسے بدعنوان ڈاکٹروں کے کان کھینچے تو کئی زندگیاں محفوظ ہوسکتی ہیں۔ ذرا ماضی قریب میں جائیے تو سرکاری اسپتالوں کے بظاہر مجبور اور بے بس ڈاکٹر تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر ہڑتال پر نظر آتے ہیں، مگر دوسری طرف ان کی اکثریت نجی اسپتالوں میں لوٹ کھسوٹ میں بھی مصروف ہے۔ افسوس کہ ہمارے حکمران اس حوالے سے حقیقی معنوں میں کوئی قدم اٹھاتے نظر نہیں آرہے۔ غیر رجسٹرڈ کمپنیاں اب بھی کام کررہی ہیں اور ڈاکٹر سرکاری شفاخانوں سے غیرحاضر جبکہ نجی اسپتالوں میں حاضر نظر آتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ چند ماہ پہلے دوا ساز کمپنیوں نے قیمتوں میں اضافہ کیا تھا تو سوشل نیٹ ورکس پر صارفین یعنی عوام نے اضافے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے حکومت سے اس کے خلاف قانون کو حرکت دینے کا بھرپور مطالبہ کیا تھا، لیکن سرکاری سطح پر دوا سازوں سے بات چیت کا سلسلہ چلا تو لوگ مطمئن ہوگئے اور دو ماہ بعد فیس بک ہی کیا ہر طرف اس حوالے سے خاموشی چھاگئی۔ اگر ہم سوشل میڈیا پر گروپ کی شکل میں نام نہاد سفاک منافع خوروں کے خلاف سرگرم ہوجائیں تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر پڑھے لکھے اور طب و صحت کے شبعے سے وابستہ ایماندار اور باشعور لوگ آگے آئیں تو نام نہاد مسیحاؤں کے گھناؤنے کردار اور جعلی ادویہ ساز اداروں کے گٹھ جوڑ کا راز سب پر عیاں ہوسکتا ہے، جس سے لوگوں میں شعور و آگاہی پھیلے گی اور یہ ’’جرم‘‘ ٹھکانے لگ جائے گا۔