علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجیے دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجیے دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی، یہ کتے کیا کرتے ہیں؟
کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے، کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آ کر طرح کا ایک مصرع دیدیا۔
ایک آدھ منٹ کیبعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کر دیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ دیا۔ اس پر شمال مشرق کی طرف ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔
اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھیے، کم بخت بعض تو دو غزلے سے غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے، وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ ” آرڈر آرڈر” پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پردھان کی کبھی کوئی سنتا ہے؟ اب ان میں سے کسی سے پوچھیے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے اور پھر ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔
اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوت کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک قابل تعریف بھی ہے۔ اسکا ذکر ہی جانے دیجیے اسکے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بار ہا ڈالیاں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا، خدا کی قسم انکے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے کتنے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی ” بخ ” کر دی اور پھر منہ بند کر کے کھڑا ہو گیا۔
ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر ” بخ ” کر دی۔ چوکیداری کی چوکیداری اور موسیقی کی موسیقی۔ ہمارے کتنے ہیں کہ نہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر، تان پہ تان لگائے جاتے ہیں۔ بیتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی لیے جاتے ہیں۔
گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلقات کتوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں۔ لیکن ہم سے قسم لے لیجیے جو ایسے موقع پر ہم نے کبھی سیتا گرہ سے منہ موڑا ہو۔
شاید آپ اسکو تعلی سمجھیں لیکن خدا شاہد ہے کہ آج تک کبھی کسی کتے پر ہاتھ اٹھا ہی نہ سکا۔ اکثر دوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہیے کہ دافع بلیات ہے لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غالب پا جاتی ہے کہ آپ اگر ہمیں اسوقت دیکھیں تو یقینا یہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں۔
شاید آپ اسوقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرج کے سروں کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبعیت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیت الکرسی آپ کے ذہن سے اتر جائیگی اسکی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں۔
بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوا ہے کہ رات کے دو بجے چھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آ رہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں چونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نو مشقی کا عالم بھی ہے اسلیے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بے سرے بھی ہو گئے تو کوئی یہی سمجھے گا کہ انگریزی موسیقی ہے، اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا، ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔
گویا بہت ہی کتا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے چھڑی کی گردش دھیمی دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول، زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھرتھرا کر خاموش ہو گئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بے آواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔
طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔ چونکہ ہم طبعا ذرا محتاط ہیں۔ اس لیے آج ک کتے کے کاٹنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا ہے۔ یعنی کسی کتنے نے آج تک ہم کو کبھی نہیں کاٹا اگر ایسا سانحہ کبھی پیش آیا ہوتا تو اس سرگزشت کی بجائے آج ہمارا مرثیہ چھپ رہا ہوتا۔ تاریخی مصرعہ دعائیہ ہوتا کہ ” اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو”
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں سمجھ لیجیے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں۔ یعنی ایک تو متعدی مرض ہے اور پھر بچوں اور بوڑھوں سب ہی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بھاری بھرکم اسنفد یار کتا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کیلئے بھونک لے تو ہم بھی چاروناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔ ( اگرچہ ایسے وقت میں اسکو زنجیر سے بندھا ہونا چاہیے۔ )
لیکن یہ کم بخت دو روزہ، سہہ روزہ، دو دو تین تین تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذرا سا پھیپھڑا اس پر بھی اتنا زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دم تک پہنچتی ہے اور پھر بھونکتے ہیں۔ چلتی موٹر کے سامنے آ کر گویا اسے روک ہی تو لیں گے۔ اب اگر یہ خاکسار موٹر چلا رہا ہو تو قطعا ہاتھ کام کرنے سے انکار کر دیں لیکن ہر کوئی یوں انکی جان بخشی تھوڑا ہی کر دیگا؟ کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انکی آواز سوچنے کے تمام قوی معطل کر دیتی ہے۔
خصوصا جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے انکا ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کر دے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ ہر ایک کیطرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ کچھ انکا شور، کچھ ہمارے صدائے احتجاج ( زیرلب) بے دھنگی حرکات و سکنات ( حرکات انکی، سکنات ہماری) اس ہنگامے میں دماغ بھلا خاک کام کر سکتا ہے؟ اگرچہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم کہ اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مار لے گا؟
بہر صورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر انکا ایک نمائندہ شرافت کیساتھ ہم سے آ کے کہہ دے کہ عالی جناب، سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چون و چرا کیے واپس لوٹ جائیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔
ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑک ناپنے میں گزار دی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے۔ ( قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر انکا کوئی عزیز و محترم کتا کمرے میں موجود ہو تو یہ مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں)
خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتے اسکے کلیے سے مستنثنیٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا۔ اسکے جسم میں تپسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بار گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کیساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غوروفکر کیلئے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانسی کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سر کو وہیں زمیں پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتحال کو ایک نظر دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔
کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کیساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کیخلاف سمجھتے ہیں۔
رات کے وقت یہی کتا اپنی خشک، پتلی سی دم کو تا بحد مکان سڑک پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا۔ انہوں نے غیظ وغیب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کر دی۔” بچہ فقیری کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں”۔ بس اسی فقیر کی بددعا سے اسی وقت رعشہ شروع ہو جاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بیشمار کتے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چار پائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔
اگر خدا مجھے کچھ عرصے کیلئے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے، رفتہ رفتہ سب کتے علاج کیلئے کسولی پہنچ جائیں۔
ایک شعر ہے۔
عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
یہی وہ خلاف فطرت شاعری ہے جو ایشیا کیلئے باعث ننگ ہے، انگریزی میں ایک مثل ہے کہ ” بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے ” یہ بجا سہی، لیکن کون جانتا ہے کہ ” ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کر دے، اور کاٹنا شروع کر دے۔
تحریر: احمد شاہ پطرس بخاری