تحریر۔ حسنین جمال
کیا مدر ٹریسا جنت میں جائیں گی؟ یہ سوال بچپن سے بہت تنگ کرتا تھا اور اس کا جواب ہمیشہ ہاں یا نہیں کی بجائے کافی گھما پھرا کر ملتا تھا۔ پھر سوال کرنا چھوڑ دیا۔ کئی سوالات ایسے ہوتے تھے جن کا جواب پوچھنے سے پہلے معلوم ہوتا تھا، یہ بھی انہیں میں کا ایک سوال تھا۔ کل ایک مولانا کی تحریر ایدھی صاحب کے بارے میں پڑھی اور احساس ہوا کہ بہت اچھا تھا جو ایسے سوالات کے جواب کسی سے پوچھنا چھوڑ کر خود ڈھونڈ لیے۔ وہ تحریر محترم مولانا کا خطاب تھا جو کسی عقیدت مند نے ٹائپ کر کے پیش کر دیا۔ آئیے ایک نظر اس چارج شیٹ پر ڈالتے ہیں جو ایدھی صاحب کے خلاف لگائی گئی ہے۔
(نومبر 2012 میں عبدالستار ایدھی نے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: “میرے نزدیک اسلام کے ارکان 6 ہیں، بلکہ حقوق العباد سب سے زیادہ اہم ہے۔”
مشہور صحافی اوریا مقبول جان راوی ہیں۔ کہتے ہیں کہ کراچی میں ایک مجلس میں میں اور ایدھی صاحب اکٹھے تھے، نماز کا وقت ہوا تو میں نے کہا ایدھی صاحب نماز پڑھ لیتے ہیں۔ کہنے لگے: “آپ کا دل رکھنے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہوں لیکن میں اسے کوئی چیز نہیں سمجھتا”۔
ایدھی صاحب کو حج کا خیال بھی آیا تھا۔ رمی جمرات کے وقت کہنے لگے: “پاکستان میں کم شیطان ہیں وہاں جاکر انہیں کنکریاں مار لوں گا۔” یاد رھے عبدالستار ایدھی وہی شخص ہیں جنہوں نے گل افشانی کی تھی کہ عید الاضحی پر قربانی سے گلیوں میں بہت گند پڑتا ہے، یہ پیسے غریبوں کو دے دئے جائیں۔ ایدھی صاحب کا جہاد کے متعلق یہ نظریہ ہے کہ انسانوں کی مدد کرنا ہی جہاد ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ابتدا کراچی میں زچگی کے مرکز سے ہوئی۔ ایدھی صاحب نے خود 38 برس میں ایک نرس بلقیس سے شادی کی۔
خدمت خلق کا ایدھی ترجمہ “خاصا اوکھا” ہے، بھاگ کر شادی کر لینے والی لڑکیوں کو پناہ دینا۔ جو خواتین بچوں کی پرورش نہیں کرنا چاہتی ان کے بچے سنبھال کر ان کو آزاد کرنا۔ حرام کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش۔
اب یہ کچھ عجیب سی بات ہے کہ درج بالا مقاصد کے تحت صرف پاکستان میں “ہزاروں” ایمبولینسیں، مراکز اور ڈسپینسریاں۔۔۔ یعنی پاکستان نہیں ناپاکستان ہوگیا یہ۔۔ معاذاللہ!
اب تک کوئی ایسا کیس نظر نہ آیا کہ کسی لڑکی کو اس کے گھر واپس پہنچا دیا گیا ہو (گیتا کے علاوہ)!! تلخ حقیقت!!
یہ بھی جان لینا مددگار ہے کہ 2010 میں عبد الستار ایدھی صاحب کو “احمدیہ مسلم ایوارڈ” دیا گیا (یوٹیوب پر ویڈیو موجود ہے)۔ اب “احمدیہ” اور “مسلم”۔۔۔ تم ہی کہو جاناں۔ ۔ ۔ یہ ماجرا کیا ہے؟؟
مزید کہ مودی سرکار کی 10 ملین ڈالر امداد کی پیشکش وہ بھی صرف ایک گونگی بہری ہندو لڑکی کو ہندوستان بھیجنے پر۔۔۔ یا للعجب!! میں بھی کہوں اوباما اور نیتن یاہو نوبل پرائز کیوں لے بیٹھے، مودی بھی تو خدمت خلق کا ایک استعارہ ہے نا جناب!! 10 لاکھ امداد وہ بھی “پاکستانی” تنظیم کو۔) چارج شیٹ کا خلاصہ مکمل ہوا۔
ایک ایسا بچہ جس کی ماں اس کے بچپن میں ہی فالج کا شکار ہو جائے اور وہ دن رات ایک کر کے اس کی خدمت کرے، دوا دارو کے واسطے پیسے نہ ہوں، جیسے تیسے بیمار ماں کی دیکھ ریکھ کرے، آٹھ برس خدمت کرنے کے بعد جب ماں کا انتقال ہو تو وہ دنیا کی خدمت کرنے نکل پڑے، ساری عمر ملجگے سلیٹی کپڑوں میں گزار دے، کتنے ہی میٹرنٹی ہومز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز، اولڈ ہومز، بلڈ بینکس، سکول بنوائے اور اپنی ذات یا اپنے بچوں کے لیے ایک گھر تک نہ بنائے، 1500 ایمبولینسوں کا مالک ہو اور خود پیدل گھومتا ہو، ہزاروں بے سہارا بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور معذوروں کو پناہ دیتا ہو اور خود بیمار پڑنے پر عام سرکاری ہسپتال میں علاج کرواتا ہو، زلزلہ، آندھی، طوفان، گرمی، سردی، کسی بھی آفت کی پرواہ کیے بغیر متاثرہ افراد کی مدد کرنے ہر جگہ پہنچ جاتا ہو اور انہی بداحتیاطیوں کی وجہ سے گردے بھی خراب کروا بیٹھا ہو، جن تعفن زدہ لاشوں کو رشتے دار بھی ہاتھ نہ لگائیں انہیں اپنے ہاتھوں سے باعزت طریقے پر دفنا چکا ہو، لاوارث لاشوں کا وارث ہو، افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا، سماٹرا، انڈیمان، امریکہ، یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش کو ایمبولینسیں عطیہ کرے اور مسلمان، ہندو، مسیحی، پارسی، احمدی، شیعہ، سنی، آغا خانی کی تفریق کیے بغیر ان کی مدد کرے واقعی وہ اس قابل ہے کہ معاشرے کے قابل صد احترام مذہبی راہنما اس کی یہ گت بنائیں۔
تاریخ اٹھائیے اور ڈھونڈنا شروع کیجیے، کوئی ایک انسان آپ کو اپنی گذشتہ چھ سات سو برس کی تاریخ میں نظر نہیں آئے گا جس نے اتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کی خدمت کی ہو۔ ہاں آپ کو مناظرے ہوتے نظر آئیں گے، آپ کو جنگیں ہوتی نظر آئیں گی، آپ کو لائبریریاں جلتی دکھائی دیں گی، عمارتیں اور حرم سرا دکھائی دیں گے، آپ کو منافقانہ فتوے نظر آئیں گے، آپ کو حاکم وقت کے قصیدے نظر آئیں گے، آپ کو قتال نظر آئیں گے، آپ کو جہل اور تنگ نظری کی وہ مثالیں نظر آئیں گی کہ آپ کے سر، اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے، شرم سے زمین میں گڑ جائیں گے۔
ایدھی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کی دکان داری خراب کی ہوئی ہے۔ کسی ایک مصروف سڑک کے کنارے زبردستی لگائے گئے نام نہاد خدمت خلق کے کیمپ کو تین مہینے میں اتنی آمدن نہیں ہوتی جتنی ایدھی صاحب اور ان کی بیگم سڑک کنارے چلچلاتی دھوپ میں بیٹھے ایک اپیل پر اکٹھا کر لیتے ہیں۔ لوگ ان پر اعتبار کرتے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ کہاں اکٹھا ہونے والا چندہ کس کام میں استعمال ہوتا ہے۔ ایدھی نے کبھی مذہبی ہونے کا دعوی نہیں کیا، نہ کبھی جھوٹی پارسائی کے دعوے کیے، نہ اپنی امانت و صداقت کے بلند و بانگ دعوے کیے، ایدھی نے صرف اور صرف عمل کر کے دکھا دیا۔ ان کی تمام زندگی آپ کے سامنے ہے، یہی اکل کھرا پن آج پچاسی چھیاسی برس کی عمر میں بھی ان کا خاصہ ہے۔
چارج شیٹ پر بات کر لیجیے۔ ایدھی فاونڈیشن نے مودی صاحب کی امداد لینے سے انکار کر دیا تھا، یہ خبر صاحبان منبر کی نظر سے چوک گئی اور “صرف ایک گونگی بہری لڑکی” کی اصطلاح سے یہ چیز واضح ہے کہ ایک لڑکی اور ایک جانور میں شاید کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔
احمدی بھائیوں سے ایوارڈ وصول کرنے پر اعتراض تو خیر اب وضاحت کا متقاضی بھی نہیں ہے۔ پنبہ پنبہ کجا نہم! اور ساتھ جو اعتراض جڑا ہے کہ کسی لڑکی کو آج تک اس کے گھر نہیں پہنچایا، اس کے لیے ذرا ایک زحمت کیجیے، کسی بھی ایدھی سنٹر جا کر ان سے پرانے رجسٹر منگوا لیجیے، بیٹیوں کے پتے لیجیے اور انہیں خط لکھ کر تصدیق کر لیجیے، ہزاروں کی تعداد میں ایسی بیٹیاں ملیں گی جو ایدھی سنٹرز کی بدولت اپنے گھروں میں سکھی ہیں۔ بلقیس ایدھی تو باقاعدہ شادی شدہ جوڑوں میں مصالحت بھی کرواتی ہیں، کچھ تحقیق کر لیا کیجیے صاحبان ذی وقار!
بھاگ کر شادی کر لینے والی لڑکیوں کو پناہ دینا اور حرام کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش، ان دو “الزامات” پر آتے ہیں۔ بھاگ کر شادی کر لینے والی کوئی بہن یا کسی کی بیٹی اگر حرام کاری کے اڈے پر پائی جائے تو آپ کو اعتراض نہیں ہو گا کیوں کہ وہ تو گھر سے باہر قدم نکال کر گناہ گار ہو ہی گئی، اب اس کی جانے بلا، ہاں ایدھی سینٹر والے اسے پناہ دیں گے تو آپ کو کھٹکے گی کیوں کہ ایدھی صاحب کا تو کام ہی یہی ہے۔ گویا کتنی ہی لڑکیوں کا مستقبل اور ان کے خاندان تک بچا لینا ایک غلط کام ہے۔ بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو!
حرام کاری سے ہو یا حلال کاری سے، حمل کا اسقاط آپ کے یہاں جرم ہے۔ جو بچہ اب وجود میں آئے گا اسے کوڑے کے ڈھیر پر ڈالنے سے بہتر جھولا نہیں ہے کیا؟ حرام کاری سے پیدا ہونے والے بچے کا ولی فقہی طور پر حکم ران ہوتا ہے، اپنے یہاں تو حلال زادوں کا بھی کوئی ولی وارث نہیں، انہیں بھی ایدھی غریب سنبھالتا ہے کجا بے چارہ وہ کہ جو پیدائش سے پہلے ہی حرام طے کر دیا گیا ہو۔ ویسے یہ درست ہے کہ اس بچے کو کہیں ویران جگہ پر پھینک دیا جائے تو بہتر ہے کم از کم ولدیت کا خانہ بھرنے کے عذاب سے تو بچے گا۔ سابق صدر زرداری کے علاوہ آج تک کسی حاکم وقت نے جھوٹے منہ بھی نہیں کہا کہ ایسے بچوں کی ولدیت میں ہمارا نام لکھ دو، کمال کا زوال ہے!
شروع کے تین الزامات مولانا ہونے کی حیثیت سے صاحب موصوف کا حق بلکہ فرض اولین تھے، ان پر بات کرنے کی بجائے آپ گوگل پر جا کر “ایدھی فتویٰ” کی سرچ کر لیجیے، آپ کو وہ جواب مل جائیں گے جن کی وجہ سے فقیر نے بچپن میں سوالات کرنے چھوڑ دئیے تھے۔