لاہور (ویب ڈیسک) شریفوں کی سیاست اب بھی نواز شریف کے پاس ہے بلکہ آس پاس ہے۔ شہباز شریف اب بھی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اس کے پیچھے ہیں بلکہ پیچھے پیچھے ہیں۔ لگتا ہے مریم نواز اب لیڈر ہے۔عمران خان کے بعد کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ نامور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ایسٹیبلشمنٹ سیاسی قیادت کو بے اثر کرنے میں کامیاب ہے۔ مقبول اور محبوب لیڈر شپ ختم کی جا رہی ہے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی اور کوئی نہ بولا۔ بھٹو کے بعد ایک اجڑی ہوئی سیاسی صورتحال تھی۔ عمران خان ورلڈ کپ اور شوکت خانم کینسر ہسپتال کی مقبولیت کے کسی دروازے سے داخل ہونے میں کامیاب ہوا تو اسٹیبلشمنٹ نے اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی بلکہ اس کی کامیابی کے لیے راستہ نکالا۔ اب اسے ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے۔ عمران کے بعد بھی اجاڑ نظر آ رہا تھا۔ مگر مریم نواز نے ایک رونق لگا دی۔ اب وہ لوگوں کو صاف نظر آ رہی ہے۔میرا خیال ہے یہ تماشا پاکستان میں چلتا رہے گا۔ اسٹیبلشمنٹ مصروف رہے گی اور سیاسی قیات اپنے انجام کو جاتی رہے گی۔لگتا ہے عمران خان بھول گیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد کیا کرنا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ نواز شریف کو کسی خاص کام کے لیے رکھا ہوا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ خاص کام کیا ہے۔ وہ بھی مریم نواز کے لیے سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ بہت آگے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔آخر شہباز شریف کو جیل میں کیوں نہیں بھیجا گیا۔ حمزہ شہباز کو بھیجا گیا ہے۔ شہباز شریف تو اسے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنا کے اور اپنے آپ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنا کے مطمئن ہو گئے تھے مگر بات اندر کھاتے نواز شریف کی ہے اور باہر مریم نواز آگے ہی آ گے ہے۔ ایک مقابلہ مریم نواز اور حمزہ شہباز میں ہو گا۔ شاید؟یہاں نواز شریف کا ایک قول قبول کریں میں نے کبھی کسی شخص پر اعتماد نہیں کیا جسے میں نے خریدا نہ ہو۔ اب کیا کہتے ہیں شہباز شریف بیچ اس مسئلے کے؟ حمزہ شہباز سے میں پوچھنا نہیں چاہتا۔ گھر کے آدمی تو خریدے ہوئے ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ مریم نواز کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ شریفانہ سیاست کے خاتمے کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔ شکر ہے مریم نواز نواز شریف نہیں لکھتی۔حضرت مولانا فضل الرحمن کی سن لیجئے۔ ان کا فرمان ہے کہ تاجروں کی ہڑتال کامیاب ہو گئی ہے۔ اس لیے الیکشن فوری طور پر کرا دئیے جائیں۔ الیکشن کا کیا فائدہ ہو گا۔ اس کا کیا تعلق تاجروں کی ہڑتال کی کامیابی سے ہے۔؟ ابھی صرف یہ فائدہ نظر آ رہا ہے کہ حضرت مولانا الیکشن جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔اب وہ اسمبلی میں نہیں ہیں تو ان کی کارکردگی میں فرق نہیں پڑا۔ وہ ’’قائد‘‘ حزب اختلاف کا کردار خوب نبھا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ خورشید شاہ کے لیے حضرت مولانا کو اعتراض نہ تھا۔ انہیں تو کوئی سلیکٹ نہیں کہتا جبکہ وہ الیکٹ ہونگے تو سلیکٹ ہی ہوں گے۔ یعنی سلیکٹ ہونے کے لیے الیکٹ ہونا ضروری ہے۔ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔حضرت مولانا کی جماعت میں کوئی ہے کہ جو بتائے حافظ حسین احمد کو کیوں انتخاب نہیں لڑنے دیا گیا۔ حافظ صاحب کو گِن یا تول لیں۔ نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔ حافظ صاحب جیسا ایک آدمی بھی پوری اسمبلی میں نہ ہو گا۔ میں ڈرتا ہوں کہ میری اس بات کا بھی کوئی نقصان حافظ صاحب کو نہ پہنچ جائے۔ پہلے ایک بار ایسا ہو چکا ہے۔سنا ہے مریم نواز کے پاس اور بھی کچھ وڈیوز ہیں ان کے سامنے آنے کے خوف سے کس کس کو ڈر لگ رہا ہے۔ سیاست کرنا اب مریم نواز کو آتا جا رہا ہے۔۔